تحریر: کرن مہک
نامور سائنسدان گراہم بیل جس نے ٹیلی فون ایجاد کیاتھا اس نے یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ آنے والی صدی میں اسٹیو جابز نامی ایک شخص پیدا ہوگا جو اپنی ذہانت سے اس ٹیلی فون کو چھوٹی سی ڈیوائس بنا کر بڑے سے فون کی جگہ جیب میں منتقل کردے گا اورعام لوگ اسے موبائل فون کی شکل میں اپنی جیب میں اور خواتین پرس میں لے کر پھرا کریں گی، لوگ اپنے گھر اور گھر سے باہر اس کے بغیر خود کو ادھورا سمجھیں گے۔
والدین لوری کی جگہ موبائل میں مختلف تصاویر اور دیگر دلچسپ ویڈیوز دکھا کر بچوں کو کھانا کھلائیں گے اور بچے گیم کھیل کر جبکہ بڑے فیس بک پر ٹائم پاس کرکے اپنا دل خوش کریں گے اور تو اور کوئی فیس بک میں اپنے لئے ہیر ڈھونڈے گا اور کوئی اپنے خواب پورے کرے گا اور خود کو منوائے گا، اب اس ایجاد کی حیثیت ایک الہٰ دین کے جن جیسی ہو چلی ہے، جس کا کام ایک کلک میں اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کرنا ہے۔ ایک جادوئی جن جو ایک کلک پر مطلوب معلومات اور الہٰ دین کو اس کی جیسمین سے ملا سکتا ہے۔ ہیر کو رانجھے سے ملادیتا ہے۔
انٹرنیٹ کی طاقت سے لیس یہ محض موبائل فون ہی نہیں بلکہ اس کے ذریعے پوری دنیا کی معلومات آپ کی دسترس میں ہیں،ہاں مگر میاں بیوی اوربچے یہ موبائل زیادہ استعمال کررہے وہ تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں اوردیگررشتے بھی اپنی اہمیت کھو رہے ہیں، انسان کو اعتدال سے رشتے نبھانا ویسے بھی گراں گزرتا محسوس ہوتا ہے، دھوکے باز انسان اپنے دھوکے کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔
محبت کہیں مسکرا رہی ہے کہیں رو رہی ہے، محبت اور دوستی کے معنی جیسے بدل گئے ہوں، مگرذہین اور سمجھ دار لوگ جانتے ہیں کہ اپنوں سے اور دوستوں سے کتنے فاصلے سے بات کرنی ہے اورکتنی بات کرنی ہے، تعلق بناؤ تو توڑا نہیں کرتے کیونکہ انسانی تعلق مرنے کے بعد بھی ٹوٹ نہیں سکتا، ہرانسان اپنی پہچان اور منفرد شخصیت کا مالک ہے اورانسان کی انسان دوستی اسے انسانیت سے جڑے رہنے پہ قائم رکھتی ہے۔
جدید دور کی اس ایجاد نے انسان سے انسان کے رابطے آسان تر بنائے، اجنبی اورغیروں کو جہاں اپنا بنایا وہی اپنوں میں چھپے غیر بھی عطا کیے، انٹرنیٹ اورموبائل نے دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں میں تبدیل کیا، اب سمندرپاریا دور دیس کا مسافر اپنوں کی یاد میں زیادہ بےچین نہیں ہوتا، اپنے گھروالوں کے علاوہ اس کا حلقہ احباب بڑھ ہو چکا ہے اسے اب لمبی بات کرنے کے لیے ڈاک کا انتظار نہیں کرنا پڑتا چھوٹے بڑے مسئلے سبھی ایک کلک ایک کال پر گھر بیٹھے دیس پردیس میں حل ہوجاتے ہیں۔
ٹیلی فون کے لمبے چوڑے بلوں کا مسئلہ اب انٹرنیٹ اورواٹس ایپ نے حل کردیاہے،اب ویڈیو کالزپرآمنے سامنے بات ہوجاتی ہے تو اجنبی سینس میں رہنا اتنا مشکل نہیں لگتا بیوی بچوں عزیز رشتے دار سے بات کرنا آسان ہوچکا ہے سوائے گھر بیٹھے افراد کے، موبائل جدید دور کی شدید ضرورت ضرور ہے مگرزندگی نہیں۔ اب ہم نے اپنی زندگی کو ضرورت سے زیادہ مصروف کرلیا ہے، ایک وقت تھا جب ایک ٹیلیفون ایک گھر میں ہوتا تو پورا محلہ اس سے مستفید ہوتا تھا، جس گھر میں فون ہوتا ان کو بہت امیر تصور کیا جاتاتھا۔ اب ہر بچے کے پاس اپنا موبائل ہے بچے بڑے سب ہی اس سے مستفید ہو رہے ہیں اور ہم کتنے خوبصورت دور میں جی رہیں مگر پھر بھی ہمارے شکوے، ہماری مجبوریاں اوربہانے ختم نہیں ہوتے۔