The news is by your side.

خان کے سو دن ۔۔ حکومت کس سمت میں گامزن ہے؟

حکومت کے ابتدائی سو دنوں کے دوران ملک کو مالیاتی بحران سے نکالنے کےلیے کئی آپشنز زیرِ بحث آئے۔ مگر یہ کریڈٹ پی ٹی آئی حکومت کو جاتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں غالباً پہلی مرتبہ آئی ایم ایف کی شرائط قبول کرنے سے انکار کیاگیا ۔ آئی ایم ایف نے جو شرائط رکھی تھیں ، اگر ان کو من وعن قبول کرلیا جاتا تو یہ ایک کامیاب معاشی خودکشی قرار پاتی ۔ یہی وجہ ہے کہ جب حکومت نے آئی ایم ایف سےمذاکرات کا فیصلہ کیا تو خاصی تنقید ہوئی۔ آئی ایم ایف کی ٹیم جو شرائط لے کر اسلام آباد آئی تھی ، ان کے مطابق پاکستان کو جی ٹی ایس اٹھارہ فیصد کرنا تھا، 150 ارب کے مزید ٹیکسز لگانے تھے جبکہ بجلی ،گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافےاور ڈالر کی قدر میں کمی نہ کرنے جیسی شرائط شامل تھیں۔

پاکستان کو آئی ایم ایف کی مجوزہ شرائط سے بچانے میں وزیراعظم عمران خان کے غیرملکی دوروں کا بہت اہم کردار رہا۔ وزیراعظم عمران خان اگر دوست ممالک کو اقتصادی بحران سےنمٹنے کےلیے معاونت پر آمادہ نہ کرپاتے تو یقیناً ہمیں آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑتے ۔ سعودی عرب کے ساتھ اگرچہ اقتصادی پیکج پر دستخط ہوچکے مگر چین کے ساتھ ابھی بہت سے معاملات کو حتمی شکل دینا باقی ہے۔ اس کے باوجود جس اعتماد کے ساتھ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے سے انکار کیا ، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت چین کے ساتھ جلد اقتصادی پیکج طے پانے کےلیے کافی پرامید ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے امریکی مطالبہ’ڈومور ‘ کا کرارا جواب دے کر عوام کے دل جیت لیے ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان نےجس جرات مندی سے ٹرمپ انتظامیہ کو ’آئینہ‘ دکھایا ، وہ قابلِ ستائش ہے۔ اور اس سے شہیدِ ملت خان لیاقت علی خان کے دورِ حکومت کی یادیں تازہ ہوگئی ہیں ۔ جب ہندوستان نے برطانوی پاؤنڈ کے مقابلے میں بھارتی روپے کی قیمت کم کی اور پاکستان کو بھی ایسا کرنے کا مشورہ دیا تو شہیدِ ملت نے پاکستانی روپے کی قدر کم کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ شہیدِ ملت لیاقت علی خان کا وہ تاریخی’مکا ‘ بھی یاد آیا , جب بھارت کی جانب سے پاکستان پر حملے کا خدشہ پیدا ہوا تو آپ نے ایک عوامی اجتماع میں بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو ’مکا‘ ہوا میں لہرا کر دکھایا تھا۔ جس کا بزدل دشمن پر ایسا اثر ہوا کہ وہ پاکستان پر حملہ آور ہونے کی جرات نہ کرسکا۔

اب ماضی سے حال میں واپس آتے ہیں تو یہ بھلا کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ’افواج پاکستان ‘ اس کارخیر میں حکومت کا ہاتھ نہ بٹاتیں ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے واضح کردیا ہے کہ ’افواج پاکستان امریکی امداد کے بغیر بھی طاقتور ہیں ‘ لہٰذا امریکہ کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے ۔

اگر ہمیں ایک آزاد،خود مختار اور باوقار خارجہ پالیسی اپنانی ہے تو ہمیں خود کو جلد از جلد بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے سودی قرضوں کے چنگل سے نکلنا ہوگا۔ اگرچہ آزاد و خود مختار خارجہ پالیسی کی بنیاد وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دبنگ تقریر سے ہی رکھ چکے ہیں۔ ایک مضبوط اور خود انحصار معیشت مضبوط ملکی دفاع کےلیے ایک سنگِ میل کی حثیت رکھتی ہے۔ جتنے ہم معاشی طور پر مستحکم ہوں گے ، ہمارا دفاع اتنا ہی ناقابلِ تسخیر ہوگا اور ہماری خارجہ پالیسی آزاد ، خود مختار اور باوقار ہوگی۔

مجھے فواد چوہدری کے نقطہ نظر سے بالکل اتفاق ہے کہ لوٹی ہوئی قومی دولت نواز شریف اور آصف زرداری سے واپس لے کر ہم بتدریج زیادہ سرعت سے پاکستانی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔ لہذاٰ کڑا احتساب وہ کامیاب نسخہ ہے جو آنے والے نسلوں کا مقدر سنوار سکتا ہے۔ مگر جب بھی کبھی لفظ ’کڑا احتساب ‘ استعمال ہوتو لامحالہ مجھے ڈاکٹر طاہرالقادری کی ضرور یاد آتی ہے۔ کیونکہ جوباتیں آج کل فواد چوہدری پارلیمان میں کھڑے ہوکر کررہے ہیں، و ہی باتیں ڈاکٹر طاہرالقادری 2014 کے دھرنے کے دنوں میں کہا کرتے تھے۔

قصہ مختصر یہ کہ چوروں ،ڈاکوؤں اور بد عنوانوں کا کڑا احتساب ضرور ہوناچاہیے ۔ اب چلتےچلتے کوئی یہ ضرور سمجھادے کہ حزبِ اختلاف کو فواد چوہدری سے اتنی چڑ کیوں ہے؟ ،آخرفوادچوہدری نےایسا کیاغلط کہہ دیا ؟۔چیئرمین سینیٹ نے تواب فواد چوہدری کو سزا بھی دے دی ہے ،یہ سزا مناسب تھی یا نہیں ؟ یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتی ہوں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں