The news is by your side.

بد قسمت طیارہ جو کبھی اپنی منزل تک نہ پہنچ سکا

عنایت اللہ شہزاد


7دسمبر 2016کو چترال سے اسلام آباد جانے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 661نے اپنی منزل کی جانب اڑان بھری، طیارے میں جہاز کے عملے سمیت کل 48مسافر سوار تھے، مسافروں میں سے اکثرکا تعلق چترال سے تھاجبکہ باقی مسافروں میں پاکستان کے مختلف مقامات سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔ مسافر بردار فوکر طیارے کو پائلٹ احمد منصور جنجوعہ اور کیپٹن صالح جنجوعہ اڑا رہے تھے۔ ان دونوں حضرات کو ہزاروں فضائی کلومیٹر ز میں طیارے اڑانے کا تجربہ حاصل تھا، احمد منصور جنجوعہ فٹ بال سے بھی شعف رکھتے تھے اور کسی حد تک مہارت بھی۔

طیارہ سہ پہر 3بجے چترال ائیر پورٹ سے فضا میں بلند ہوا، 90منٹ کی مسافت طے کرتے ہوئے اسلام آباد سے 70کلومیٹر دور حویلیان کی فضا ئی حدودمیں داخل ہوا تو جہاز عملے اور کنٹرول ٹاور کا آپس میں رابطہ منقطع ہوگیا، جہاز کا انجن بند ہوا، چونکہ جہاز میں 2انجن ہوتے ہیں اور ایک انجن خراب ہونے کی صورت میں پائلٹ دوسرا انجن اسٹارٹ کرکے جہاز کو کسی محفوظ مقام پر اتار سکتا ہے، مگر بدقسمت طیارے کا ایک انجن شاید پہلے سے ہی خراب تھا، دوسرا انجن حویلیان کی فضاؤں میں داخل ہوتے ہی کام کرنا چھوڑ دیا، طیارہ آبادی کے اوپر گرنے والا تھا ، پائلٹ نے جہاز کا رخ غیر آبادی والے علاقے کی طرف موڑ دیا ، جہاز میں فضا میں ہی آگ بھڑک اٹھی اور یہ بد قسمت طیارہ زمین پر گرتے ہی ریزہ ریزہ ہوگیا۔

طیارہ گرنے سے 48قیمتی انسانوں نے اس غیر محفوظ اور فانی دنیا کو خیر باد کہ دیا اور چترال سے اسلام آباد کے سفر کو حویلیاں میں چھوڑ کر سفرِ آخرت کا آغاز کیا۔ یہ خبر محض 48خاندانوں پر ہی نہیں، ان خاندانوں سے جڑے سینکڑوں مزید خاندانوں، ہزاروں رشتے داروں اور کرہ ارض پر دردِ دل رکھنے والے ہر انسان کیلئے قیامت بن کر ٹوٹ پڑی۔

بدقسمت جہاز میں پاکستان کے معروف مذہبی اسکالر، مسلم امہ کا پسندیدہ نعت خواں اور 80کی دہائی کا مقبول کلوگار جنید جمشید بھی سوار تھے،ان کی اہلیہ بھی محوِ پرواز تھیں، آپ دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں چترال گئے تھے، چترال کی مساجد میں اپنی خوبصورت آواز سے نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺکی شان میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے، لوگوں کو اسلام کی پاسداری، امن، محبت اور روداری کا درس دیااور واپسی کے سفر کے دوران خالقِ حقیقی سے جاملے۔ طیارے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے نوجوان بیوروکریٹ اسامہ وڑائچ بھی موجود تھے، آپ حادثے سے پہلے ڈی سی چترال تعینات تھے اور عوامی خدمت کی وجہ سے مقبول افسران میں شمار ہوتے تھے۔ جہاز میں سلمان زین العابدین بھی سوار تھے، آپ چترال سے تعلق رکھنے والے ہردلعزیز شخصیت سابق ایم پی اے زین العابدین (مرحوم) کے فرزندِ ارجمند تھے۔ آپ کی شہادت کی خبر گھر پر پہنچی تو آپ کی بہادر والدہ محترمہ نے اسے اللہ کا فیصلہ تصور کرکے قبول کیا اور طیارے میں موجود مزید افراد کے لواحقینِ کے صبرِ عظیم کیلئے دعا کی۔

جہاز میں لینگ لینڈ اسکول کے استاد فرداد عزیز اپنی بیٹی طیبہ عزیز کے ہمراہ موجود تھے، آپ کی شخصیت اور حسنِ سلوک زبانِ زدِ خاص و عام تھا۔ بدقسمت طیارے میں اپر چترال کے ہیڈکوارٹر بونی سے تعلق رکھنے والے نوجوان احترام الحق بھی موجود تھے، آپ نے کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کی تھی، شادی کرکے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا اور پولو کھیلنے سے شعف رکھتے تھے۔ آپ کی شہادت کی خبر سے آپ کے دوست احباب حواس باختہ ہوگئے اور آج بھی آپ کو یاد کرتے ہیں۔

پی آئی اے کی پرواز پی کے 661میں گرم چشمہ چترال سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 6افراد بھی لقمہ اجل بن گئے جبکہ ان کے ہمراہ سفر کرنے والی 14سالہ بیٹی حسینہ امتحانات میں مصروف ہونے کی وجہ سے گھر پر ہی موجود رہیں اور بچ گئیں۔فضائی مسافروں میں عابد ، احسان، عائشہ ، اکبر، اختر، عامر، آمنہ اور ماہ رخ بھی شامل تھے جبکہ ان کے ہمراہ عاصم ، عتیق، فرح، گوہر، گل، نوازبھی موجود تھے، غیر ملکی مسافرہان قیانگ، ہیرویگ اور کیسلر بھے سوار تھے اور حسن، جنید، محمود، مرزا ، فرحان ، خالد، محمد خان، خاور، شفیق، تکیبر اور نثار الدیں بھی محوِ پرواز تھے۔رانی، سمیع، ثمینہ، شمشاد، تیموراور عمارہ اور زاہدہ بھی بدقسمت پرواز کے مسافر تھے۔

جس طرح جنید جمشید ہم سب کے دلوں کی آواز تھے اور ہر ایک کے دل میں ان کا مقام اور رتبہ تھا، اسی طرح پی کے 661کا ہر مسافر اپنی ماں کی آنکھوں کا تارا، اپنے خاندان کے دل کی ٹھنڈک اور اپنے حلقہ احباب کے لئے اہم ، معزز، مکرم اور معزم تھا۔پاکستان نے ثابت کردیاکہ یہ غم صرف ان 48خاندانوں کا نہیں بلکہ پوری قوم اس دکھ میں الم کا شکار اور شریک ہے۔ سانحہِ 7دسمبر میں شہید ہونے والے مسافروں کے لواحقین سے میری استدعا ہے کہ گزشتہ 2سال جو گزارنے کیلئے مشکل تھے، اب گزر چکے ہیں، آئندہ بھی گزر بسر ممکن ہے، میری اور آپ سب کی جان اللہ کی امانت ہے، ہم سب کو لوٹ کر اسی خالق کے پاس ہی جانا ہے۔ لہٰذا صبر کا دامن تھامیں رکھیں۔ ہمارے عزیز چلے گئے اور ایک نہ ایک دن ہم سب کو بھی جانا ہے۔

ہاں مگر! ہم اپنے عزیزوں کو یاد کرتے رہیں گے، ان کی معفرفت کیلئے اللہ کے حضور دعا کرتے رہیں گے، ان کی کمی کو خاندان پر ظاہر ہونے نہیں دینگے، ان کی ذمہ داریوں کو اپنی ذمے داری بناکر پوری کرینگے اور خود کو مزید متحرک، مزید مضبوط اور مزید ذمے دار بنائیں گے کیونکہ یہی وہ اعمال ہیں جنھیں کرنے سے ان کی روحوں کو سکون میسر ہوگی۔

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں