پاکستانی فلمی صنعت میں بحیثیت پاکستانی کے کئی فنکار ایسے بھی ہیں جو غیر مسلم تھے اور ان کا تعلق کرسچن، پارسی، ہندو گھرانوں سے تھا مگر اپنے اپنے شعبوں میں انہوں نے نمایاں مقام پایا۔
1955ءمیں گلوکار سلیم رضا جن کا تعلق کرسچن فیملی سے تھا، جن کی پہلی فلم ”نوکر“ تھی مگر ان کی وجہ شہرت بحیثیت گلوکار کے فلم ”نور الاسلام“ کی یہ نعت تھی جو آج تک مختلف مذہبی محفلوں میں پڑھی جاتی ہے، نعت کے بول ہیں ”شاہِ مدینہ شاہِ مدینہ، یثرب کے والی سارے نبی، تیرے در کے سوالی، شاہِ مدینہ، شاہِ مدینہ“۔۔۔ یہ نعت آج بھی اتنی ہی مقبول ہے جتنی آج سے55 سال قبل تھی، ان کی مقبول فلموں میں عشقِ لیلیٰ، وعدہ، حسرت، حمیدہ، لختِ جگر، آس پاس اور کوئل شامل ہیں، ان کی آخری فلم ”نجمہ“ تھی جو1970ءمیں ریلیز ہوئی، ان کا انتقال1983ءمیں ہوا۔
اپنے وقت کی معروف گلوکارہ ”آئرین پروین“ کا تعلق بھی عیسائی فیملی سے تھا، ان کی پہلی فلم 1953ءمیں ”ممتاز“ ریلیز ہوئی تھی، ان کی سپرہٹ فلموں میں عادل، بغاوت، خاندان، خاموش رہو، غدار، حاتم طائی جبکہ ان کی آخری فلم ”عظیم قوم کی عظیم بیٹی“ 1981ءمیں ریلیز ہوئی تھی۔
ماضی کے موسیقار آنجہانی دیبو بھٹی چاریہ ان کا تعلق ہندو مذہب سے تھا، 1957ءمیں ان کی پہلی فلم ”مسکہ پالش“ تھی، ان کا تعلق کراچی سے تھا دیگر کامیاب فلموں میں لاکھوں فسانے، بنجارن، شکوہ، تقدیر، آرزو اور بہار شامل تھیں، آخری فلم ”دل والے“ جو1975ءمیں ریلیز ہوئی۔
گلوکار ایس بی جون کا تعلق کرسچن فیملی سے تھا، ان کی پہلی فلم ”سویرا“ 1958ءمیں ریلیز ہوئی تھی، ان کے گیت ”تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے، یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے“ یہ گانا اپنے وقت کا مقبول ترین گیت تھا۔موسیقار روبن گھوش کا تعلق ہندو گھرانے سے ہے، ان کی پہلی فلم چندا تھی، ان کی مقبول فلموں میں چکوری، تلاش، احساس، چاہت، آئینہ، امبر اور دوریاں قابلِ ذکر ہیں۔
گلوکار اے نیئر کا تعلق عیسائی برادری سے تھا، ان کی فلم ”بہشت“ تھی جو 1974ءمیں ریلیز ہوئی، ان کی مقبول فلموں میں اک گناہ اور سہی، سلاخیں، امبر اور کبھی الوداع نہ کہنا تھی۔
موسیقار ایس ٹی سنی کا تعلق صوبہ سرحد کے ہندو گھرانے سے تھا، آنجہانی کی پہلی فلم پشتو زبان کی ”بازو شہباز“ تھی۔ یہ پشتو فلموں کے مقبول موسیقار تھے ان کی کامیاب فلموں میں کافرستان، شرافت، بدنام، انصاف اور داغ قابلِ ذکر ہیں۔
موسیقار موہن چندر بیلی رام کا تعلق بھی صوبہ سرحد سے تھا، ان کا تعلق ہندو گھرانے سے تھا، ان کی پہلی فلم ”یادوں کی بارات“ تھی جو1977ءمیں ریلیز ہوئی اور دیگر فلموں میں قسم، عجب خان شامل ہیں۔
ہدایتکار ریاض شاہد (مرحوم) کی بیوہ اور اداکار شان کی والدہ نیلو کا تعلق عیسائی گھرانے سے تھا، ان کی پہلی فلم ”انجام“ 1956ءمیں ریلیز ہوئی تھی، ہدایتکار ریاض شاہد سے شادی کرکے وہ مسلمان ہوئی تھیں۔ اداکارہ نیلو پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی ہیروئن ہیں۔ ان کی فلم ”زرقا“ نے ریکارڈ توڑ بزنس کیا تھا اور فلم ”زرقا“ کے ایک سین میں انہیں کئی مرتبہ تشدد کے حوالے سے پانی میں ڈبویا گیا، اس وقت وہ امید سے تھیں۔ یہ اداکارہ شان کی والدہ بھی ہیں مگر امید سے ہونے کے باوجود انہوں نے یہ خطرناک سین بہت خوش اسلوبی سے نبھایا۔ ان کی مقبول فلموں میں یکے والی، کوئل، نیند، آنکھ کا نشہ، سات لاکھ اور خطرناک قابلِ ذکر ہیں، ان کی آخری فلم 2002ءمیں ”کالو“ ریلیز ہوئی تھی۔
اداکارہ رقاصہ ایمی مینوالا کا تعلق پارسی مذہب سے تھا۔ یہ ہدایتکار حسن طارق (مرحوم) سے شادی کرکے مسلمان ہوگئی تھیں، ان کی پہلی فلم ”سوہنی“ تھی، جو1955ءمیں ریلیز ہوئی، ان کی قابلِ ذکر فلموں میں ”باجی، اولاد“ شامل ہیں۔ اداکارہ رانی سے شادی کے بعد حسن طارق سے ان کا رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا، جب حسن طارق شدید بیمار ہوئے تو ایمی مینوالا نے دن رات ان کی خدمت کرکے ایک نیک عورت ہونے کا ثبوت دیا جبکہ وہ بیماری سے قبل رانی کو طلاق دے چکے تھے۔
اداکارہ شبنم کا تعلق ہندو گھرانے سے تھا، پاکستان نے انہیں بہت عزیت دی مگر وہ پاکستان سے وفا نہ کرسکیں اور بنگلہ دیش چلی گئیں۔ ان کی پہلی فلم ”چندا“ تھی جو 1962ءمیں ریلیز ہوئی، اداکارہ شبنم موسیقار روبن گھوش کی بیوی ہیں، 25 سال تک ہیروئن کے کرداروں میں پاکستانی فلموں میں کام کیا مگر جب بنگلہ دیش کا وجود عمل میں آیا تو بنگالی بن گئیں اور عزت دینے والے پاکستان کو چھوڑ گئیں۔ ان کی سپرہٹ فلموں میں عندلیب، دوستی، انمول، دل لگی، تلاش، اناڑی، پہچان، آس، آج اور کل، آئینہ، پاکیزہ اور بندش شامل ہیں۔
اداکار نومی کا تعلق پارسی مذہب سے تھا، یہ اداکارہ ایمی مینوالا کے چھوٹے بھائی تھے، ان کی پہلی فلم ”بنجارن“ 1962ءمیں ریلیز ہوئی، ان کی مقبول فلموں میں اناڑی، داغ، ہم دونوں اور تلاش قابلِ ذکر ہیں۔اداکارہ سمیتا دیوی کا تعلق ہندو گھرانے سے تھا، ان کی پہلی فلم ”سنگم“ تھی، جو 1964ءمیں ریلیز ہوئی تھی، یہ ادکارہ اب انڈسٹری میں نہیں ہیں۔
اداکارہ روزینہ کا تعلق بھی عیسائی گھرانے سے تھا، ساؤنڈ ریکارڈسٹ قریشی سے شادی کے بعد اسلام قبول کرلیا تھا، ان کی پہلی فلم ”چوری چھپے“1965ءمیں ریلیز ہوئی تھی، ان کی سپرہٹ فلموں میں ارمان، جوش، سمندر، احسان قابل ذکر ہیں۔اداکارہ سنتوش رسل کا تعلق بھی عیسائی گھرانے سے تھا، آنجہانی کی پہلی فلم ”جہاں تم وہاں ہم“ 1967ءمیں ریلیز ہوئی تھی، ان کی معروف فلمیں نادان، آس، آبرو، پروفیسر، پہچان ہیں۔ یہ فلموں میں ماں کا کردار ادا کرتی تھیں۔
اداکارہ نوین تاجک کا تعلق عیسائی گھرانے سے تھا، ان کی پہلی فلم ”اج دیاں کڑیاں“ تھی، یہ فلم1977ءمیں ریلیز ہوئی تھی، ان کی سپرہٹ فلموں میں پرکھ، پرنس، کس نام سے پکاروں، ہائے یہ شوہر، خاک اور خون اور وطن شامل ہیں۔
ہماری فلمی صنعت میں تمام غیر مسلم فنکاروں نے بڑی محنت اور محبت سے اپنا مقام بنایا اور اس ملک کی خدمت کی، صرف شبنم ایسی اداکارہ تھی جو اس وطن سے وفا نہ کرسکی۔