The news is by your side.

اردو ادب کی ترویج میں سوشل میڈیا کا کردار

تحریر : عروج اقبال صدیقی

زبان ہماری شخصیت سازی اور تہذیب کی صورت گری کرتی ہے اور انسان کو اپنی زبان کے ہر ہر لفظ سے جذباتی لگاؤ ہوتا ہے، ادب شعور کی آگہی کیلئے بھی نہایت ضروری تصور کیا جاتا ہے،جہاں تک ’’اردو زبان و ادب کی اشاعت میں سوشل میڈیا کے کردار ‘‘ کی بات ہے تو یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو زبان و ادب بھی انٹرنیٹ پر اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ اخبارات و رسائل، کتب و دستاویزات، خواہ قانونی یا طبّی، ناول ہو یا افسانے، تحقیق ہو یا تنقید، نظم ہو یا نثر، دینیات ہو یا درسی کتابیں اور مواد ہو کہ غیر درسی وغیرہ جو بھی ضروریات ہوں سب کی سب بذریعہ انٹرنیٹ و کمپیوٹر ترقی کے مراحل طے کر رہی ہیں۔ اردو کے بہت کم ہی ایسے روزنامے ہوں گے تو انٹرنیٹ پر نہیں ہیں۔،

اردو ادب جو کہ برصغیر کی پہچان ہے, اردو ادب کے بڑے بڑے نام اسی خطے نے پیدا کیے، ادب ہمارے خطے کی شروع سے پہچان رہی ہے، اسی کی بدولت ادیبوں نے پاکستان بنانے کا جنون پیدا کیا، سوچیے کہ اگر اُس دور میں سوشل میڈیا ہوتا تو اقبال کے ٹوئٹس عوام میں پھیلانا لمحوں کا کام ہوتا ۔ سوشل میڈیا نے ادب کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ آپ کو کلیات اقبال چاہیے یا حفیظ جالندھری کا زندگی نامہ، آپ جدِ حواید تلاش کر رہے ہیں یا ملفوظاتِ جناح بس آپ کو ایک کلک پر سب کچھ کھانے کی میز پر مل جائے گا!! بیس سال قبل بہت سی عام معلومات جسے حاصل کرنے کے لئے لائبریوں اور اساتذہ سے رابطہ کرنا پڑتا تھا، اب بڑی آسانی سے سرچ انجن کے ذریعہ کسی بھی پورٹل سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پرانے دور میں اگر ادیب کچھ لکھتا تھا تو اسے سو کلو میٹر دور بیٹھے شخص تک پہنچنے میں ہفتوں اور بسا اوقات مہینوں لگ جاتے تھے، بعض دفعہ اِن کی اشاعت ہوتے ہوتے مواد پرانے ہو جاتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے اکثر لوگ افسانے، کہانی، شاعری وغیرہ میں تو دلچسپی لیتے ہیں کیوں کہ یہ پرانے ہو بھی جائیں تو نئے ہی لگتے ہیں۔ جبکہ تکنیکی مواد کی اشاعت بر وقت نہ ہو تو چند مہینے میں ہی یہ پرانے ہو جاتے ہیں۔ بہترین چیز یہ کہ آپ کتابوں کے ڈھیر کو پلک جھپکتے اپنی سکرین پر پاتے ہیں؛

آپ کو شاید یہ جان کر حیرانی ہو کہ انٹرنیٹ پر ایک منٹ یعنی کہ ساٹھ سیکنڈز میں اردو ادب کے1438801 صفحات دیکھے جاتے ہیں، ایک منٹ میں 134.7 ملین اردو ادب کے پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے،ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر انٹرنیٹ پر اردو ادب کی تمام سائٹس بند کر دی جائیں تو ساٹھ سیکنڈز کے اندر اندر صرف گوگل کو ہی 83000 ڈالرز کا نقصان ہوگا۔،

اگر صرف ریختہ ڈاٹ کام کی بات کی جائے تو ریختہ ڈاٹ کام پر سینکڑوں کتابیں دستیاب ہیں‘ طلسم ہوشربا، داستان امیر حمزہ جو کلاسیکی ادب کا اثاثہ ہے نئی نسل جس سے واقف بھی نہیں ہے وہ بھی ریختہ ڈاٹ کام پر دستیاب ہے۔ یہی نہیں بلکہ اردو کے تقریباً سبھی شعرائے کرام غالب، میر، اقبال و فیض سے لے کر دور حاضر کے اُبھرتے شعراء شامل ہیں۔ ان کا کلام اردو، انگریزی اور ہندی رسم الخط میں بھی موجود ہے اور ان کی ویڈیو کلیپنگس بھی آپ اپنے محبوب شاعر یا شاعرہ کے کلام سے ان کی اپنی آواز میں محفوظ کر سکتے ہیں۔ ادبستان ڈاٹ کام، کتابستان، شعر و سخن ڈاٹ کام، بہار اردو یوتھ فورم ڈاٹ آرگ اور سینکڑوں ایسی ویب سائٹس ہیں جن سے اردو ادب کو فروغ مل رہا ہے۔ عصر رواں کے ادیبوں کا کاروبار بھی فقط انٹرنیٹ تک محدود ہے، پرانے زمانے کی نسبت آج کل کے ادیب خوشحال نظر آتے ہیں، ادیب حضرات کی آمدنی چونکہ ان کے ادب سے وابستہ ہے ادب جتنے لوگوں تک پہنچے گا ان کی آمدنی میں بھی اسی قدر اضافہ ہو گا جو کہ ادیبوں کے ساتھ ساتھ ہماری آنے والی نسلوں کیلئے بھی خوش آئند ہے۔

اگر پاک و ہند کی ہی بات کی جائے تو 60 فیصد افراد کا فیس بک اکاؤنٹ ہے جن سے ایک منٹ میں 293000 اسٹیٹس اپلوڈ کیے جاتے ہیں، جن میں سے168000 اسٹیٹس اردو ادب پر مشتمل ہوتے ہیں، ایک منٹ میں 136000فوٹوز اپلوڈ کیے جاتے ہیں جن میں سے93000 کلیات، اشعار، اقوال پر مشتمل ہوتے ہیں، یعنی کہ وہ تمام چیزیں جو آپ تک پہنچنے میں ہزاروں برس لگتے ان کے حصول میں آپ کی صد سالہ زندگی بھی کم پڑ جاتی وہ اب آپ کو بستر پر لیٹے لیٹے باآسانی دستیاب ہو سکتے ہیں۔

یہ وہم ہے اے دوست کہ مرجائے گی اردو
خوشبو کی طرح ہر سمت بکھر جائے گی اردو

۔سوشل میڈیا بھی انفرادی واجتماعی سطح پراپنے خیالات و افکار کی ترسیل واشاعت کا ایک بہت اہم وسیلہ بن چکا ہے، سیاسی مباحثے ہوں یا سماجی مسائل، علمی و سائنسی موضوعات ہوں یاادبی عناوین؛ ہرایک موضوع پرلوگ اپنے اپنے ذوق و دلچسپی کے موافق ٹوئٹر، فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام اوردیگر سیکڑوں سوشل سائٹس کے ذریعے کھل کر اظہارِ خیال کررہے ہیں ، کچھ دنوں پہلے تک اردو والے اپنی باتیں رومن رسم الخط میں لکھتے تھے اوراس سے ایک اندیشہ پیدا ہونے لگا تھا کہ کہیں اس طرح اردو رسم الخط کو نقصان نہ پہنچ جائے، مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ اندیشہ کافور ہوگیا اورانٹرنیٹ پردیگر زبانوں کی طرح اردو شائقین کی بھی ایک بڑی تعداد نمودار ہوگئی، جو سوشل میڈیا پر بہ سہولت اردو زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرسکتی تھی!!!

صرف یہی نہیں سوشل میڈیا کا ایک بہت بڑا فائدہ اردو پڑھنے کے رواج میں اضافہ بھی ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ ہم کتاب سے دور رہے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اب کہیں کسی دوست کی فیس بک وال پہ کتابوں کا تذکرہ، کہیں کتاب کی تقریب رونمائی کی تصاویر، کہیں مفصل تبصرے اور کہیں مختصر اقتباس سے نئی آنے والی کتابوں کا نہ صرف علم ہوجاتا ہے بلکہ کتاب کے خریدنے کے رجحان میں بھی اضافہ ضرور ہوا ہے۔ اس کا ثبوت باقاعدگی سے ہونے والے کتب میلے اور لٹریچر فیسٹیول ہیں جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی شرکت اس امر کا اظہار ہے کہ کتاب کی محبت معاشرے میں سوشل میڈیا کی بدولت واپس آرہی ہے۔

اس لئے اگر مستقبل قریب میں یہ رجحان ترویج پاتا ہے تو بلاشبہ اس کا سہرا سوشل میڈیا، اردو ویب سائٹس اور اس کے لکھاریوں کے سر ہوگا۔ اس وقت بھی ایک عام پاکستانی جس کی پہنچ ایک سستے موبائل اور فری ڈیٹا پیکیج تک ہے، وہ بھی ایک ماہ میں کم از کم دو کتابوں کے برابر مواد پڑھ رہا ہے۔

الحمداللّہ، واٹس ایپ اب اردو میں دستیاب ہے، اس میں بہت سے لوگوں کی محنت شامل ہے، جنہوں نے بنا کسی تنخواہ یا فائدے کے اس کے لیے کام کیا اور اب ہر اردو بولنے، پڑھنے یا سمجھنے والا اسے استعمال کرسکے گا۔ اس میں مزید اور بھی کام کر نے کی ضرورت ہے امید کرتے ہیں کہ اسی طرح مخلص لوگ آگے آئیں گے اور اردو سے محبت کا ثبوت دیں گے۔ اس تناظر میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں اردو کو ملنے والی اہمیت اور ترقی مزید اثر انداز ہوسکے گی۔

یاد رکھیے!! دنیا کو کوئی ضرورت نہیں کہ ہماری زبان کو سنبھال کر رکھے، یہ ذمہ داری ہمیں خود اٹھانی ہے، مجھے اردو زبان پیاری ہے تو مجھے اپنا پیار خود ہی ثابت کرنا ہے اور میں اسے زندہ رکھنا چاہتی ہوں۔

کس طرح حسن زباں کی ہو ترقی وحشتؔ
میں اگر خدمت اردوئے معلیٰ نہ کروں

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں