آج کل سیاسی شعبدہ بازوں نے اپنی پتنگ آسمانوں تک پہنچانے کی کوششیں کی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے مصطفی نواز کہتے ہیں کہ جو بھی باہر سے امداد آرہی ہے یا ملی ہے، اس میں حکومت کا کیا کمال ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج اور عمران خان کی ہنگامی بنیادوں پر کوششیں باور ثابت ہوئی ہیں، آپ نے بھی تسلیم کرلیا تو پھر یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے سیاست دانوں کو کیا اعتراض ہے کہ ان کی معیاد برھانے کے لئے سیاست دان کہتے ہیں کہ اپوزیشن مل بیٹھ کر فیصلہ کرے گی۔ یہ آپ سیاست دانوں کے سوچنے کی بات ہے، عوامی خواہشات کی نگاہ سے دیکھیں تو عوام یہی چاہتی ہے کہ ان کی معیاد نہ ختم ہونے والی ہوں۔
جب سے حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے تمام سیاسی جماعتیں جو گزشتہ30 سال سے اس ملک پر حکومت کررہے تھے اور انہوں نے حکومت کیسے کی، اس کا جواب تو عوام دے رہی ہے اور دے گی مگر اپوزیشن میں رہنے والے سیاسی لیڈر ایک ہی بات پر کانوں میں رس گھولتی آواز کا ورد کررہے ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کا مینڈیٹ جعلی ہے۔ ماضی میں جب نواز شریف الیکشن جیتے تھے تو پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں شور مچاتی تھیں کہ دھاندلی ہوئی ہے، ہم اس کو نہیں مانتے۔ خیر زرداری صاحب نے پانچ سال پورے کئے اور پھر اس کے بعد میاں صاحب کی جماعت برسرِ اقتدار آگئی تو پیپلز پارٹی نے شور مچایا کہ دھاندلی ہوئی ہے، ہم اس الیکشن کو تسلیم نہیں کرتے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی عرصہ دراز سے حکومتیں کرتے رہے اور ظاہر ہے اس ناطے تمام حکومتی اداروں میں ان کے چاہنے والے تشریف فرما تھے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب عمران خان الیکشن میں کھڑے ہوئے تو ان کی سیاسی حیثیت تو اس بچے کی تھی جو پہلی مرتبہ سیاسی اسکول میں داخلے کی نیت سے داخل ہوا، نہ وہ سیاسی بیورو کریٹ کو جانتے تھے، نہ سیاسی لوگوں کو (عمران خان کے لئے نہیں، غیر جانبدار ہو کر اسے لکھا ہے) تو پھر وہ الیکشن کیسے جیت گئے۔
سیاست دان اداروں کا نام نہیں لیتے، بس کہتے ہیں کہ اداروں نے انہیں اس منصب پر بٹھایا ہے، ان کی اتنی ہمت نہیں کہ اداروں کا نام لیں مگر تعلیم یافتہ طبقے نے اس دفعہ شہروں میں عمران خان کا ساتھ دیا اور وہ سادہ اکثریت سے جیت گئے، ان شہروں میں کراچی اور حیدرآباد بھی شامل ہیں۔
ناکام سیاست دان اب تک گیدڑ بھبکیوں سے کام چلارہے ہیں اور اب سیاسی آئی سی یو میں ہیں، بدعنوان سیاسی لوگ مارے مارے پھررہے ہیں، قوم لطیف احساس کے ساتھ یہ تماشا دیکھ رہی ہے، ماضی کے غلیظ سیاسی کلچر نے قوم کو اور حکومت کو کرب کی داستان بناکر رکھ دیا ہے، سیاسی غم والم کی داستانیں رو رو کر دہائی کرتی نظر آرہی ہے، اب سیاسی چڑچڑاپن عروج پر ہے، مسائل جوں کے توں ہیں اور سیاسی آتش بیانی عروج پر ہے اور اس سیاسی تصادم نے قوم کا ملیامیٹ کرکے رکھ دیا ہے، قوم بے دلی کا تاثر لئے خاموش ہے۔
ہارے ہوئے سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ ماضی میں اگر قوم کی بہتری اور توانائی کے لئے کام کرتے رہے ہیں تو کرب کی داستانیں بیان نہ کریں بلکہ اپنے عمدہ کارناموں پر وائٹ پیپر شائع کریں (اچھی اصلاحات پر) تاکہ سچ کی تحقیقات کے تقاضے پورے ہوں اور قوم اس گمبھیر صورتحال سے نکلے، وہ ماضی میں کی گئیں انتظامی صلاحیتوں کو نمایاں کریں تاکہ عوام میں ایک احساس کی خوشبو پھیلے۔
وزیراعظم عمران خان کو بھی چاہیے کہ اس قوم کو مسائل کی خوفناک سُولی سے اتار کر دم لیں اور قوم کے لئے مخلصانہ حکمت عملی اپنائیں۔ اپنے وزیروں، مشیروں کو ہدایت دیں کہ وہ محاذ آرائی کا حصہ نہ بنیں، لوگوں کے مسائل پر توجہ دیں۔ علاقائی بنیادوں پر بھی کام کریں، بہتان تراشیوں پر اب مٹی ڈالیں، سپریم کورٹ، احتساب عدالتیں اور نیب کو اپنے توسط سے کام کرنے دیں۔ وزراءعوام کے مسائل پر توجہ دیں، مسائل عذاب الٰہی کی طرح اس قوم پر مسلط ہیں، ان پر توجہ دیں۔
سینئر سٹیزن کے لئے ایک لاکھ پر1190 روپے پرافٹ کردیا گیا ہے، یہ وزیراعظم عمران خان کا ایک عظیم کارنامہ ہے مگر یہ سود ہے۔ برائے مہربانی صرف اور صرف سینئر سٹیزن (عمر رسیدہ افراد) کے لئے اسے اسلامی سرٹیفکیٹ میں تبدیل کردیں، جب پرائیویٹ بینک اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجراءکرسکتے ہیں تو عمر رسیدہ افراد کے لئے قومی بچت میں1190 روپے ماہانہ کو اسلامی سرٹیفکیٹ میں تبدیل کیوں نہیں کرسکتے۔ یہ کسی المیہ سے کم نہیں کہ اسلامی سرٹیفکیٹ میں پرائیویٹ بینک ایک لاکھ پر400 روپے ماہانہ دے رہے ہیں، آپ اسے اسلامی سرٹیفکیٹ میں تبدیل کریں تاکہ ان پرائیویٹ بینکوں نے اسلامی سرٹیفکیٹ کے نام پر جو ادھم بازی مچارکھی ہے وہ ختم ہو۔
راقم کو کئی عمر رسیدہ افراد نے رائے دی جو جنون کی حد تک کئی سیاسی پارٹیوں سے وابستہ تھے، وہ کہتے ہیں کہ ووٹ اب عمران خان کا ہے۔ اسحاق ڈار سابق وزیر خزانہ نے ان عمر رسیدہ افراد کو تو کچل کر رکھ دیا تھا اور ان عمر رسیدہ افراد کو جو قومی بچت سے وابستہ ہیں، ان کی تعداد کروڑوں میں ہے، وہ اب عمران خان کے ساتھ ہیں۔ وزیر خزانہ اسد عمر اس تحریر پر خصوصی توجہ دیں کہ وہ تحریک انصاف اور عمران خان حکومت کا حصہ ہیں۔
اب آئیے چلتے ہیں کچھ سندھ کے حالات کی طرف صوبائی وزیر برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن و انسداد منشیات اور پارلیمانی امور مکیش کمار سے مودبانہ گزارش ہے کہ اس تحریر کو تنقید کے زمرے میں نہ لیں بلکہ اس کو اصلاح کے طور پر لیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نادہندہ گان گاڑیوں کے مالکان اپنے ٹیکسز فوری طور پر جمع کروائیں تاکہ انہیں ناخوشگوار صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے تو محترم گزشتہ دنوں راقم کو کے ڈی اے چورنگی پر پولیس نے روک لیا کہ کاغذات اور ٹیکس دکھائیں، خیر راقم کے کاغذات اور ٹیکس مکمل2019ءتک تھا، اس معاملے سے آپ اور آپ کی وزارت کا معاملہ صرف ٹیکس کے زمرے میں آتا ہے، لائسنس سے آپ کی وزارت کا تعلق نہیں مگر دکھ تو اس بات کا ہے کہ جو شہری شرافت کا ثبوت دیتے ہوئے گاڑی کا ٹیکس ادا کرتا ہے، اسے بلاوجہ پریشان کیا جاتا ہے۔
سڑکوں پر جو یہ چنگچی چل رہے، کیا یہ ٹیکس دیتے ہیں، 90 فیصد موٹر سائیکل سوار کیا ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو ٹیکس ادا کرتے ہیں، کیا روٹ پر چلنے والی بسوں کی اکثریت آپ کو ٹیکس دے رہی ہے (اس کے علاوہ ٹریفک کی تباہی کا ذمے دار آپ کا ادارہ نہیں، یہ پولیس کا کام ہے) اس پر پھر کالم لکھوں گا۔
گزشتہ دنوں میں نے اپنی گاڑی کا ٹیکس ادا کیا ہے، آپ نے15 جنوری تک کا وقت دیا، کیا جن امور پر میں نے اوپر لکھا ہے، ان امور پر آپ یا آپ کا محکمہ عمل کرتا ہے، بہتی گنگا میں سب قانون شکن ہاتھ دھو رہے ہیں اور جو شریف شہری ٹیکس دیتے ہیں ان کو عزت و تکریم دینے والا نہیں۔ اب قانون کی روایت ان حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔
نیشنل بینک میں آپ کا عملہ دن کے11 بجے تک نہیں آتا، جنہیں ٹیکس نہیں دینا ان کی بلا سے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا عملہ آئے یا نہیں آئے مگر جو ٹیکس دینا چاہتے ہیں، جب وہ بینک جاتے ہیں تو اسٹاف کہتا ہے کہ ابھی یہ آئے نہیں ہیں بعد میں آئیے گا۔ اس پر خاص توجہ دیں اور وہاں لائن میں معتبر شریف شہری لائن بنائے اپنا وقت ضائع کرتے ہیں، اس مسئلے پر خاص توجہ دیں۔
آپ ملک کی بہتری اور بقاءکے لئے موثر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں مکیش کمار صاحب مگر اپنے عملے کو تو پابند کیجئے کہ خدارا شریف شہریوں کا خیال کریں،9 بجے ڈیوٹی پر حاضری کو یقینی بنائیں۔ برائے مہربانی شریف اور تعلیم یافتہ لوگوں کی حرمت کو پامال مت ہونے دیں کہ آپ بھی تعلیم یافتہ ہیں اور اعلیٰ وزارت کے منصب پر ہیں۔
راقم نے خامیوں پر روشنی ڈالی ہے، اس تحریر کو خوب صورت لچک دار رویے سے پڑھیں تاکہ آپ کے محکمے میں ٹیکس کا ہدف پورا ہو۔ ذی شعور شہری جب دیکھتا ہے کہ90 فیصد ٹیکس نہیں دیتے تو وہ بھی اپنے فائدے کا جائزہ لے گا کہ میں کیوں ٹیکس دے رہا ہوں اور آپ یقین کریں ان شریف شہریوں کے ٹیکس کی وجہ سے آپ کا صوبہ اور آپ کی وزارتیں خوش اسلوبی سے چل رہی ہیں، جب سب سے ٹیکس وصول کریں گے تو پھر اس شہر کے حالات بھی بدلیں گے، لہٰذا مکیش کمار صاحب ہمت سے کام لیں، جب آپ اصولی طور پر ٹیکس کے حوالے سے سختی کریں گے تو آپ کو سیاسی تانگہ پارٹیوں سے بھی نمٹنا ہوگا، اس بات پر کہ غریب پر ظلم ہورہا ہے۔