The news is by your side.

حکومتِ وقت کو کچھ مفت مشورے

پی ٹی آئی حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن پڑھا لکھا اور سیاسی طور پر باشعور نوجوان طبقہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال سانحہ ساہیوال پر کچھ وزراء کے غیرذمہ دارانہ رویےپرعوامی ردعمل ہے۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں ماڈل ٹاون جیسے بڑے سانحے کی ذمہ دار سابق حکمران جماعت کے حامی اس کا دفاع کرتے رہے ہوں اور جہاں برسرِ اقتدار طبقے کو، واقعے کا ذمہ دارہونےکے باوجود بچانے کےلیے افسر شاہی اور پولیس نے اہم کردار ادا کیا ہو۔

وہاں ایک ایسی حکومت جو کسی طور پر بھی سانحہ ساہیوال کی ذمہ دار نہیں ، اسے ایسا شدید ردعمل ملنا یقیناً پاکستان جیسے سیاسی طور پر ترقی پذير ملک میں ایک بالکل نئی بات ہے۔

اس شدید عوامی ردعمل کا مقصد میری دانست میں یہ تھا کہ حکومت سانحہ کے ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کے خلاف تحقیقات کرے اور آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کےلیے پولیس کے نظام میں اصلاحات کرکے بہتری لائے، جوکہ ایک بالکل درست سمت کا تعین ہے ۔ مگر یہاں اس بات کی یاددہانی لازم ہے کہ پاکستان میں صرف پولیس اصلاحات ہی نہیں بلکہ تمام شعبوں صحت ، تعلیم ، معیشت ، انفراسٹرکچر ، صنعت ، زراعت ، نظام عدل ، قواعد و ضوابط، طرزِ انتخابِ حکومت و مجلسِ قانون ساز، طریقہ قانون سازی ،اور صوبوں کےانتظامی امور کو قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کےلیے بتدریج اصلاحات کرنا ہوں گی ۔

وزیرخزانہ اسدعمر کا پیش کردہ حالیہ منی بجٹ قابلِ تعریف ہے کہ جس میں عوام کو خاطرخواہ ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن کا احتجاج یقیناً ناقابلِ فہم ہے۔ یہ دنیاکی واحد حزبِ اختلاف ہے جو کہ غریب عوام کو ریلیف ملنے پر بھی سراپائے احتجاج ہے ۔

حزبِ اختلاف کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ تنقید برائے تنقید اور تنقید برائے تعمیر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ حزبِ اختلاف کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ عوام نے بھی تنقید برائے تنقید پر مبنی طرزعمل کومسترد کردیا ہے۔ میں نے خود بھی متعدد مرتبہ حکومت پر تنقید کی ہے ، جس کا بنیادی مقصد ’فرسودہ نظام میں اصلاحات ‘ کا تقاضا کرنا رہا ہے۔

حزبِ اختلاف کو جواز پیش کرناچاہیے کہ وہ کس مقصد کےلیے تنقید کررہی ہے؟ حزبِ اختلاف کئی مرتبہ حکومت سے ریلیف حاصل کرچکی ہے اور وہ بھی ایسا ریلیف کہ جسے بعض حکومتی وزراء بھی ہدفِ تنقید بناچکے ہیں ۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ کیا شہبازشریف کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ اور پروڈکشن آرڈرز کو وزیراعظم کی ذات پر تنقید سے جوڑنا کیسا ہے؟، اگرصاف لفظوں میں کہاجائے تو ایک نامزد ملزم کو یہ مراعات دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہونا چاہیے تھا۔

شہبازشریف کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے پی اے سی چیئرمین شپ کےلیے کلین چٹ بھی مل چکی ہے۔ بعض حلقے حزبِ اختلاف کو ملنےوالے کسی مبینہ حکومتی این آراو کاتذکرہ کرتے ہیں مگر تاحال ایسا کوئی دعوی ٰدرست ثابت نہیں ہوا ہے۔ تو پھر مسئلہ کیا ہے؟۔

سابق آرمی چیف راحیل شریف اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی شہدائے ماڈل ٹاون کوانصاف دلانےکےوعدےوفانہ کرسکے۔ پانامہ کاہنگامہ ہو یا آشیانہ ہاوسنگ اسکینڈل، منی لانڈرنگ میگا اسکینڈل ہویا جعلی بینک اکاونٹس ہو یا پیراگون ہاوسنگ سوسائٹی اسکینڈل کوئی بھی میگا کرپشن کیس تاحال منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکا ۔احتساب کا عمل تحقیقات ، گرفتاریوں ، مقدمات ، سزائیں ، اور پھر ضمانتوں کے گول دائرے میں گھومنے تک محدود ہوچکاہے۔

اس صورتحال کی تمام ترذمہ داری ہمارے نظام عدل میں کمزوریوں اور ناقص مجموعہ قوانین پر عائد ہوتی ہے۔ معزز جج صاحبان تو دستیاب قوانین کے مطابق ہی فیصلے صادر کرتے ہیں ۔ افسوس کہ سابقہ ادوارِ حکومت میں قانونی اصلاحات پر بوجوہ ذاتی سیاسی مفادات کے کام نہیں کیا گیا۔ اس پر کام کرنے کےلیے موجودہ حکومت کو بھی حزبِ اختلاف کی حمایت درکارہے۔ صورتحال یہ ہے کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر حکومت تادم تحریر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا تعاون حاصل نہیں کرپارہی ۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حزبِ اختلاف واقعی انسدادِ دہشتگردی عدالتوں کے اختیارات میں توسیع کےلیے سنجیدہ ہے یا محض فوجی عدالتوں میں توسیع رکوانا چاہتی ہے۔ آنے والے دنوں میں جیسے جیسے پی ٹی آئی حکومت پارلیمنٹ میں قانون سازی کاکام شروع کرے گی , تو یہ صورتحال واضح ہو جائے گی کہ حزبِ اختلاف حکومت سے کس حد تک تعاون میں سنجیدہ ہیں ۔ تاہم میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس ضمن میں حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اوراسے اس کے لیے مناسب منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں