رواں سال جب سال نو کے آغاز ہوا تھا تو سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر موجود مختلف ویب سائٹس جہاں نئے سال کی مبارک باد کے پیغامات دکھائی دیے تو وہیں سائنسی دنیا میں چین کی جانب سے چاند پر بھیجی گئی خلائی گاڑی کے بارے میں خبریں سننے کو ملیں۔
چینی خلائی گاڑی، چینگ 4 کو 7 دسمبر ٢٠١٨ کو چینی سرزمین سے چاند کی جانب بھیجا گیا اور یہ خلائی گاڑی ٣ جنوری ٢٠١٩ کو چاند کی سطح پر اتری۔اب غور طلب بات یہ ہے کہ اس چین کے اس خلائی مشن میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ دنیا بھر کی سائنسی ویب سائٹس اس پر آرٹیکلز اور بلاگز لکھتی دکھائی دیں؟۔
چینگ 4 اس سے پہلے چاند پر بھیجے گئے تمام انسانی اور غیر انسانی خلائی مشنز سے اس لئے مختلف ہے کیونکہ یہ چاند کے “تاریک حصّے” پر اترا ہے۔ واضع رہے کہ یہاں تاریک حصے میں مراد چاند وہ حصہ ہے جو کبھی بھی زمین سے نہیں جاسکتا. جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ مہینے کے کچھ دنوں میں کبھی ہمیں ہلالی چاند دکھائی دیتا ہے تو کبھی مکمل چاند لیکن چاند کا داغ دارحصہ ان سب اشکال میں ایک جیسا رہتا ہے۔ ہمیں چاند کا ایک ہی رخ اس وجہ سے دکھائی دیتا ہے کہ چاند زمین کی کششِ ثقل کی وجہ سے آزادانہ طور پر گھوم نہیں سکتا۔ اِس حالت کو فلکیاتی اصطلاح میں “ٹائڈل لوکنگ”، یعنی کشش کی وجہ سے کسی چیز کا ایک ہی حالت میں منجمد ہوجانا، کہتے ہیں۔ اسی ٹائڈل لوکنگ کی وجہ سے چاند کی محوری اور مداری گردش دونوں زمینی ٢٨ دنوں میں مکمل ہوتی ہے۔ اس کا مطلب کہ زمین کی نسبت چاند پر 14 دنوں کے لئے روشنی اور 14 دنوں کے لئے اندھیرا رہتا ہے۔
جب سے یہ خلائی دور کا آغاز ہوا ہے تب سے بہت سی خلائی گاڑیوں نے چاند کے تاریک حصے کی تصاویر لیں ہیں جن میں اپولو خلائی گاڑیاں بھی شامل ہیں لیکن کوئی بھی خلائی گاڑی اس حصے پر اس لئے نہیں اتری کیونکہ چاند کا یہ رخ زمین سے ہمیشہ دوسری جانب رہتا ہے لہذا اگر کوئی خلائی گاڑی ادھر اترتی تو اس کا تعلق زمین سے ہمیشہ کے لئے منقطع ہوجاتا۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہویے چین نے مئی ٢٠١٨ کو چاند کے گرد ایک سیٹلائٹ “قیقو” بھیجی تھی جو کہ چینگ 4 سے سگنلز حاصل کرکے زمین تک ارسال کرے گی. تو اس طرح اب چین امریکا اور روس کو چاند کی دوسری طرف اترنے میں پیچھے چھوڑ کر پہلی نششت پر آگیا ہے.
چینگ 4 دو حصوں پر مشتمل ہے جس میں روبوٹک لینڈر اور “یتو ٢” نامی چاند گاڑی شامل ہے. یتو ٢ چینگ 4 کے چاند کی سطح پر اترنے کے ١٢ گھنٹے بعد اس پر بنی ایک ڈھلوان سے نیچے اتری اور چاند پر سفر طے کرنے لگی۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ چینگ 4 چاند کے جس حصے پر لینڈ کیا ہے اس کا نام “ایٹکن بیسن” ہے اور یہ نہ صرف چاند کا سب سے بڑا، گہرا اور قدیم گڑھا ہے بلکہ نظام شمسی کے سب سے بارے گڑھوں میں سے بھی ایک ہے۔ حال ہی میں ایٹکن بیسن کے پاس چاند کے گرد موجود بھارتی سیٹلائٹ نے جمے ہوئے پانی کی دریافت کی ہے اور چینگ 4 چاند کی مٹی کے سیمپل اکھٹے کرے گی اور اس سے سائنسدانوں کو چاند کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوگی۔
چینگ 4 چاند کی سطح پر بہت سے نئے تجربات لے کر گیا ہے اور اس کے اہداف میں فلکیاتی مشاہدات، حیاتیاتی تجربات اور جیوگرافیائی تحقیق شامل ہے۔
زمین پر موجود ریڈیو رصدگاہوں کو مشاہدہ کرنے کے لئے بہت سی مشکلات کا سامنے کرنا پڑتا ہے، کیونکہ بیشتر اوقات ان دوربینوں سے حاصل کردہ ڈیٹا میں دنیا میں موجود ریڈیائی سگنلز مداخلت کرتے ہیں اور نتائج صحیح نہیں آپاتے لیکن سائنسدانوں کا یہ ماننا ہے کہ اگر زمین سے تین لاکھ کلومیٹر دور چاند کے اس تاریک حصے پر، جہاں زمین پر پیدا ہونے والی ریڈیائی لہروں کی رسائی نہیں ہے، اگر فلکیاتی مشاہدات کئے جایں تو عین ممکن ہے کہ ان نتائج سے ہمیں بگ بینگ کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوسکتی ہے۔ اسی بات کو نظر میں رکھتے ہوئے چینگ 4 فلکیاتی مشاہدات بھی کرے گا اور حاصل شدہ معلومات زمین تک بھیجے گا۔
اس کے علاوہ یہ خلائی گاڑی اپنے ساتھ ایک کنستر بھی لے کرگیا ہے جو کہ چین کی ٢٠٠ یونیورسٹیز کی مشترکہ محنت سے تیار گیا ہے. اس میں مختلف پودوں کے بیچ جن میں کپاس، سرسوں، آلو اور ایک پھول دار پودے کے بیج بھی شامل تھے. اس کے ساتھ ساتھ پھل مکھی کے انڈے بھی اس کنستر میں موجود تھے. چینگ 4 کے چاند پر اترنے کے کچھ ہی دنوں بعد ان بیجوں میں سے ننھے پودے نکلے اور اسی کے ساتھ ہی یہ فلکیاتی سائنس میں چین کی جانب سے بہت بڑا قدم تھا لیکن اگلے کچھ دنوں چاند کا وہ حصہ روشن ہونے لگا جس کا رخ زمین کی طرف ہے اور پچھلا حصہ، جہاں چینگ 4 موجود ہے، تاریکی میں ڈوب گیا۔
ہم جانتے ہیں کہ چاند پر فضا موجود نہیں جس کی وجہ سےدن کے وقت چاند کا درجہ حرارت تقریبا ١٢٧ ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے جبکہ رات کی تاریکی میں پارا منفی ١٧٣ ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے. اس لئے جیسے ہی چاند کی سطح پر اندھیرا چھایا تو درجہ حرارت کم ہونے کی وجہ سے یہ ننھے پودے زندہ نہ رہ سکے اور یوں چاند پر پہلی دفعہ زندگی کی پیدائش ہوئی اور اگلے دن چاند پر پھر سے ویرانہ چھا گیا۔
چاند کا “تاریک حصہ” اس لئے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ حصہ زمینی رخ کی طرح داغ دار نہیں ہے. چاند کی سطح پر موجود داغ درحقیقت اس پر موجود گڑھوں میں موجود ٹھوس لاوا (ان پگلی چٹانوں کو کہا جاتا ہے جن کا اخراج آتش فشاں سے ہوتا ہے) کی وجہ سے ہیں اور یہ گڑھے بہت سے خلائی پتھروں کے چاند کی سطح سے ٹکرانے کی وجہ سے وجود میں آئے۔ چاند کے تاریک حصے میں بھی ان پتھروں کا ٹکراؤ ہوا لیکن وہاں یہ داغ اس لئے موجود نہیں کیونکہ چاند جب اپنے بننے کے مراحل سے گزر رہا تھا تو “ٹائڈل لوکنگ” کی وجہ سے چاند کے تاریک حصے کی سطح زمین سے نظر آنے والے حصے کی سطح کی نسبت موٹی اور ٹھنڈی ہوگئی. یہی وجہ سے ہے کہ تاریک حصے میں ٹھوس لاوا موجود نہیں۔
بہر حال، چین نے دوبارہ سے چاند پر جانے اور ایک اور دنیا بسانے کی نئی دوڑ کا آغاز کردیا ہے لہذا اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا اور روس میں سے کون اس کے مد مقابل آتا ہے۔پر یہ بات تو واضع ہے کہ بے شک دیکھنے میں یہ خلائی دوڑ لگتی ہے لیکن اس میں فائدہ صرف انسانیت کا ہے۔