زندگی کی خوبصورتی کو جس انداز میں بھی کوئی دیکھتا ہے اُسی پیرائے میں بیان کردیتا ہے۔ اگر انسان اچھا سوچتا ہے تو پھر لازمی بات ہے کہ وہ اچھا بولتا ہے گویا اچھا بولنے کے لیے اچھی سوچ کا حامل ہونا ضروری ہے۔
اِسی طرح شاعر، ادیب، ناول نگار، افسانہ نگار، آرٹسٹ اورمصور زندگی کو جس لحاظ سے دیکھتا ہے اُس کو لفظوں کا پہناوا پہنا دیتا ہے ۔ گویا اُس کے الفاظ اُس کے من کے عکاس ہوتے ہیں۔ شاعر، ادیب اور فنکار معاشرے کو حساس طبقہ ہوتے ہیں اُن کی زندگی محبت، خلوص اور پیار سے عبارت ہوتی ہے۔ اُن کے من کے اندر کی تحریک اُن کو معاشرے میں پھیلی ہوئی بے عدلی ، بے رحمی، بے وفائی اور بے اعتنائی کا اداراک عطا کرتی ہے جسے وہ بے ساختہ بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔
اِس عہد کے ممتاز شاعر جو پیشے کے لحاظ سے وکالت سے منسلک ہیں اُن کی شاعری حساس دلوں کی ترجمان ہے۔ جھوٹ، فریب اوربے حسی کے حبس میں تازہ ہواکے جھونکے کی مانند محسوس ہوتی ہے۔ جناب علی احمد کیانی جو کہ سرسبز شاداب وادیوںاور خوبصورت کوہسار وں کے فرزند ہیں جن کی شاعری کا ایک ایک حرف اور ایک لفظ پیار کی برکھا کی پھوار کی مانند ہے۔جناب علی احمد سرزمین کشمیر کے خوبصورت شہر راولاکوٹ کے نواحی گاؤں ہاڑی میں صوفی منش انسان جناب عبدالحسین کے گھر پیدا ہوئے۔ بچپن کشمیر کی دلکش وادیوں میں گزرا۔ سیکنڈری اسکول تک تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول دریک، راولا کوٹ سے حاصل کی۔ ماں باپ بہن بھائیوں کی محبت اور کشمیر کی دلفریب وادیوں کی رفاقت میں پروان چڑھنے والے جناب علی احمد کیانی کو سکول کی تعلیم کے بعد کالج میں داخلہ کے لےے زندہ دلوں کے شہر حضرت داتا علی ہجویریؒ کی نگری لاہور میں مستقل سکونت اختیار کرنا پڑی۔ انٹر، گریجویشن، ماسٹرز اور قانون کی تعلیم سرزمین لاہور سے حاصل کی۔
انسانی فطرت ہمیشہ محبت خلوص اور وفا کی تلاش میں رہتی ہے۔ لیکن خالق نے کچھ ہستیاں اِس جہان میں ایسی بھی پید اکی ہوتی ہیں جو بذات خود سراپا محبت و خلوص ہوتی ہیں۔ اِن ہستیوں سے ہماری مُراد شاعر و ادیب حضرات ہیں جن کا وجود معاشرے کے لیے نہایت قیمتی ہوتا ہے کیونکہ اُن کے دم سے خیر وبرکت کی خوشبوئیں خزاں رتوں میں بھی ماحول کومعطر کےے رکھتی ہیں یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کا حساس دل معاشرے کے ہر ہر فرد کی تکلیف پر دُکھی ہوجاتا ہے حتی کہ کائنات کی ہر شے سے اُنھیں اُنس ہوتا ہے۔ ایسا صرف اِس لیے ہوتا ہے کہ ایسے لوگ اِس دُنیا میں فقط محبت کرنے، محبت بانٹنے اور محبت کا پرچار کرنے کے لےے جنم لیتے ہیں۔ گویا اُن کا مقصد صرف ایک ہی ہوتا ہے ، محبت لازمی کرنا۔محبت لازمی کرنا جواں جذبوں کے امین، ہر سُو وفا کی خوشبو سے معاشرے کو مہکانے والے جناب علی احمد کیانی کے دوسرے شعری مجموعے کا نام ہے جو حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ برادرم علی احمد کیانی کی شاعری اپنے اندر خوداری کا لمس سموئے ہوئے ہے۔فن کوئی بھی ہو خواہ وہ شاعری ہوموسیقی ہو یا مصوری وہ انسانی احساسات و جذبات کا عکاس ہوتا ہے۔علی احمدکیانی کی شاعری بھی انسانی جذبات اور افکار کی ترجمان ہے ۔
رہزنوں سے علی بچ گیا تھا مگر
رہبروں سے لٹا دیکھتے دیکھتے
متذکرہ بالا شعر میں جناب علی احمد کیانی نے جس انداز میں معاشرے کی بے اعتدالیوں کا تذکرہ کیا ہے یقینی طورپر اُن کی یہ غزل جس کے شعر کا ذکر کیا گیا ہے اپنے اندر وسیع معنی سموئے ہوئی ہے۔اُنھوں نے جس انداز میں رہزن اور رہبر کے معاشرتی رویوں کی طرف اشارہ کیا ہے اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علی احمد کیانی رہبری کے بھیس میں رہزنی کی پہچان رکھتے ہیں اور اُن کے اندر کا حساس انسان معاشرے کی اِس انداز میں مذمت کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ جہاں محبت کی فروانی ہونی چاہیے وہاں نفرتیں پنپ رہی ہیں۔
علی احمد کیانی کا اسلوب ملاحظہ فرمائیں:
جل گیا تن بدن علی میرا
غم کے آتش فشاں سے گزرا ہوں
عشق نے پر لگا دئیے مجھ کو
آج میں آسماں سے گزرا ہوں
اُن کا نعتیہ کلام ملاحظہ ہو۔
سیرت بھی حسیں ان ﷺ کی، صورت بھی حسیں ان ﷺ کی
کردار بلند انﷺ کا، اطوار حسیں تر ہیں
صدیق ؓ، عمر ؓ، عثماں ؓ، یا شیر خدا ؓ ہیں وہ
سرکار دو عالمﷺ کے، سب یار حسیں تر ہیں
قارئین کرام آئیے اِس عہد کے ممتاز شاعر جواں جذبوں کے امین پھولوں اور تتلیوں سے محبت کرنے والے حساس شاعر جناب علی احمد کیانی سے گفتگو کرتے ہیں۔
سوال : جناب علی احمد کیانی صاحب سب سے پہلے آپ ہمیں یہ بتائیں کہ آپ نے شاعری کب شروع کی۔
جواب: میں نے چھو ٹی عمر میں ہی شعر و شاعری شروع کردی تھی جب میں ساتویں جماعت میں تھا تو سکول کی بزم ادب میں باقاعدہ حصہ
لیا کرتا تھابزم ادب کے پروگراموں میں پیش کرنے کے لےے اُس وقت میں مشہور شاعروں کے کلام کی پیروڈی کرتا تھا۔اِس طرح شعر و شاعری سے لگاؤ ہوتا چلا گیا اور جب میں میٹرک میں پہنچا تو میں نے با قاعدہ سنجیدہ شاعری شروع کردی۔
سوال: اگر ہم آپ سے پوچھیں کہ شاعری کیا ہے تو آپ کیا کہیں گے۔
جواب: قلبی احساسات وجذبات اور فطری میلانات کا منظوم اظہار شاعری کہلاتا ہے۔خُدا جب کسی کو دلِ گداز عطا کرتا ہے تو وہ زندگی کی تلخیوں اور رعنائیوں سے پیدا ہونے والی کیفیات کو شعر کے قالب میں ڈھال دیتا ہے یہی شاعری ہے۔
سوال: یہ بتائیں کہ آپ نے شاعری کی کن اصناف میں طبع آزمائی کی۔
جواب: بنیادی طور پر میں غزل کا شاعر ہوں لیکن کچھ نظمیں، ماہیے، حمد، اور نعتیں بھی لکھی ہیں۔ اِسی طرح نثر نگاری میں مزاحیہ مضامین لکھے ہیں اور میں با قاعدہ کالم نگار بھی ہوں اور میرئے کالم مختلف اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
سوال: آپ کا پہلا شعری مجموعہ کب شائع ہوا۔
جواب میرا پہلا شعری مجموعہ”آنچل کی ہوا دے دو” : 2004 ء شائع ہوا۔پہلے شعری مجموعے کا دیباچہ مشہور براڈکاسٹراُردو اور سرائیکی کے ممتاز شاعر جناب عرفان جمیل صاحب نے لکھا۔
سوال : حال ہی میں آپ کا دوسرا شعری مجموعہ محبت لازمی کرنا منظر عام پر آیا ۔ اِس حوالے سے کچھ بتائیں۔
جواب میرا دوسرا شعری مجموعہ2018 ء میں شائع ہوا۔اِس کا دیباچہ عالمی شہرت یافتہ شاعر سید سلمان گیلانی نے تحریر کیاجبکہ شہرہ آفاق پاکستانی غزل گا ئیک جناب اُستاد غلام علی صاحب کے خوبصورت تاثرات بھی اِس شعری مجموعے کی زینت بنے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ بات بتاتا چلوں کہ سید سلمان گیلانی اور اُستاد غلام علی صاحب نے پہلی مرتبہ کسی شعری مجموعے پر اپنے تاثرات قلم بند کیے اور یہ اعزاز میرے دوسرے شعری مجموعے’محبت لازمی کرنا ‘ کو حاصل ہوا۔
سوال: مستقبل میں آ پ کی کون کون سی شعری و نثری کُتب شائع ہونے جارہی ہیں۔
جواب: متذکرہ بالا دو شعری مجموعوں کے علاوہ میر ی پانچ کتابیں غیر مطبوعہ ہیں جو ا نشا اللہ اپنے وقت پر جب اللہ پاک نے چا ہا تو شائع ہوجائیں گی۔اُن میں چاندی رات میں( شعری مجموعہ)، آقا ﷺ تری گلی میں( نعتیہ مجموعہ)، حرف قلم ( اخباری کالموں کا مجموعہ ) قوس مزاح (مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ، پہاڑی کلام کا شعری مجموعہ ” پیار نے دیوے بال “شامل ہیں۔
سوا ل:شاعری میں آپ کے اُستاد کو ن ہیں۔
جواب: میں نے باقاعدہ کسی کی شاگردی تو نہیں کی لیکن مشہور شاعر سید سلمان گیلانی کے والدِ محترم سید امین گیلانی اور مشہور فلم رائیٹر رشید ساجد کے بیٹے ندیم ساجد سے بھی اصلاح لی ہے ۔
سوال: ایک اچھے شاعر کی کیا پہچان ہے۔ایک اچھے شاعر میں کن کن صفات کا ہونا ضروری ہے
جواب:سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ایک اچھے شاعر میں وہ تمام صفات ہونی چاہےے جو ایک اچھے انسان میں ہوتی ہیں۔اگر شاعرانہ اوصاف کی بات کریں تو ایک اچھے شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ شاعری کے جملہ قواعد و ضوابط کی فہم و فراست رکھتا ہو۔علمِ عروض سے واقفیت رکھتا ہو۔اِسے شعری روایات کا مکمل ادراک ہو۔اساتذہ کے کلام کے اعلیٰ نمونوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور ہم عصر شعرا کے عمدہ کلام کی پہچان رکھتا ہو۔
سوال:ایک اچھے شاعر کا فرضِ منصبی کیا ہے۔
جواب:ایک اچھے شاعر پر لازم ہے کہ وہ معاشرے کی اصلاح میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے اور اخلاقی اقدار کا پرچار کرے کیونکہ شاعر اپنے اشعار سے معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔
آخر میں آپ سے التماس ہے کہ آپ اپنا کچھ کلام قارئین کے لیے کچھ عنایت فرمائیں۔۔
کوچۂ جان ِجاں سے گزرا ہوں
میں کسی کہکشاں سے گزرا ہوں
فصل گل کی تلاش میں یارو
میں خزاں در خزاں سے گزرا ہوں
کیا یہ جیون تھا دوستو کوئی
یا میں خواب گراں سے گزرا ہوں
٭٭٭
کچھ قدم دور تھی مجھ سے منزل مگر
بڑھ گیا فاصلہ دیکھتے دیکھتے
راہ تکتا رہا میں خوشی کی مگر
غم گلے آ لگا دیکھتے دیکھتے
٭٭٭
تتلیاں، بلبلیں، پھول، غنچے گئے
زندگی کے چمن میں خزاں رہ گئی
ہر طرف،ہر جگہ، فصل گل کا سماں
میرے آنگن میں ہی کیوں خزاں رہ گئی