گزشتہ کچھ مہینوں سے حکومت پاکستان کے کچھ ادارے این جی اوز کے شور کے سبب پلاسٹک شاپنگ بیگز انڈسٹری کی تباہی و بربادی کے در پے ہیں۔ پلاسٹک شاپنگ بیگز صنعت نے سالہا سال سے پاکستان میں ملکی اور غیر ملکی کثیر سرمایہ کاری کر رکھی ہے جس سے اربوں روپے حکومت کے خزانے میں مختلف ٹیکسوں کی مد میں جمع ہوتے ہیں جبک شاپنگ بیگزانڈسٹری سے بالواسطہ اور بلا واسطہ ایک کروڑ سے زائد خاندان وابستہ ہیں۔
یہ صنعت پاکستان میں پلاسٹک استعمال کی حیثیت سے منفرد اور نمایا ں مقام رکھتی ہے ۔پاکستان کی ٹاپ ٹیکس دینے والی پانچ انڈسٹریز میں سے ایک نام پلاسٹک شاپنگ بیگز انڈسٹری کا آتا ہے بتایا جاتا ہے کہ اس انڈسٹری کا سالانہ ریونیو امپورٹ کی مد میں تقریبا60 ارب روپے کے لگ بھگ جمع ہوتا ہے جبکہ 70 ارب روپے سے زائددیگر مختلف قسم کی مدات میں ٹیکس کلیکشن ہوتی ہے۔ پلاسٹک شاپنگ بیگز انڈسٹری سے وابستہ محب وطن حضرات کا تقریبا 150 ارب روپے مشینری،مارکیٹ،بلڈنگ وغیرہ کی صورت میں انویسٹمنٹ ہے۔
بقول شاپنگ بیگز ایسوسی ایشن تمام تر کوششوں اور مسلمہ حقائق کے باوجود وفاقی اور صوبائی محکمہ جات ان کا موقف سننے یا تسلیم نہ کرنے پر بضد ہیں جومیں سمجھتا ہوں انتہائی نا انصافی اور زیادتی ہے بلکہ یہ انداز ہمارے معاشرے میں اخلاقیات ،انصاف،اور اقدار کے ساتھ بھی کھلم کھلے کھلواڑ کے مترادف ہے جس کی کسی صورت اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ پلاسٹک شاپنگ بیگز انڈسٹری سے منسلک محب وطن جملہ حضرات ان اقدامات کو ہماری ڈوبتی معیشت کیلئے زہر قاتل سمجھتے ہیں جو من حیث القوم ہم کسی صورت برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔
یہ کاروباری طبقہ اب و زیر اعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ سے ایک کروڑ سے زائد خاندانوں کے رزق کے تحفظ کیلئے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے ۔میں سمجھتا ہوں حکومتی ذمہ داران کو کوئی ایسا قانون نہیں بنانا چاہئے جو ہماری مشکل میں پھنسی معیشت اور غریب عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کا سبب بنے۔ وزیر اعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فوری طور پر مداخلت کرتے ہوئے پلاسٹک انڈسٹری سے وابسطہ ایک کروڑ سے زائدخاندان کی داد رسی کر کے ملک اور قوم کے ساتھ ہمدردی کا سامان کرنا ہوگا کیونکہ بہت سے مسائل میں ہم پہلے ہی الجھے ہوئے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے نادان دوستوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے اپنے محب وطن مذکورہ خاندانوں کو دکھیل کر بدعاؤں کا راستہ ہموار کر بیٹھیں ۔
اخباری اطلاعات کے مطابق آل پاکستان شاپنگ بیگزایسوسی ایشن کا گزشتہ دنوں لاہور میں ایک نجی مقام پر ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جس میں وفاقی محکمہ ماحولیاتی تبدیلی کا اسلام آباد میں شاپنگ بیگز پر پابندی کی تجویز اور وفاقی وزیر زرتاج گل کی طرف سے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو چودہ اگست سے اسلام آباد میں شاپنگ بیگز پر مکمل پابندی کی بھیجی گئی سمری کو یکسر مسترد کر دیا گیا۔باخبر ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں پلاسٹک انڈسٹری سے منسلک تقریبا 75 فیکٹریز مالکان نے شرکت کی تھی ۔جملہ شرکاءنے این جی اوز کے دباؤ پر فیصلہ سازوں کے غلط فیصلوں کو حکومت کے اندر بیٹھے آستین کے سانپوں سے تعبیر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایسے یک طرفہ اقدامات پاکستانی معیشت کیلئے زہر قاتل کے مترادف ہیں ۔
اسلام آباد میں شاپنگ بیگز پر پابندی اور اس حوالے سے مسلسل پلاسٹک انڈسٹری کے خلاف جاری تمام منفی سرگرمیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاگیا کہ اگر حکومتی ادارے پلاسٹک انڈسٹری کے سالانہ ٹیکس کی جانچ پڑتال ہی کر لیں تو حکومت وقت پاکستانی معیشت کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی بجائے پلاسٹک شاپنگ بیگز کی پابندی کا کبھی سوچنے کا حوصلہ بھی نہیں کر سکتی ۔اس صنعت سے وابستہ فیکٹریز کی تعداد8 ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ 60 ہزار دوکاندار اس پلاسٹک شاپنگ بیگز کے کاروبار سے بلواسطہ منسلک ہیں ۔ا س طرح براہ راست تقریبا60 ہزار خاندان ممکنہ فیصلوں سے متاثر ہوں گے روز روشن کی طرح واضح ہے اور بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس صورتحال کی متحمل سٹریچر پر پڑی ہماری معیشت ہوسکتی ہے اور نہ ہی ہماری محب وطن عوام جو پہلے سے ہی غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے وہ مزید غربت کو بڑھاوا دینے والی کسی نئی خطر ناک صورتحال کا سامنا کر سکتی ہے ۔
چونکہ پاکستان میں پہلے ہی کروڑوں لوگ غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لہذا حکومتی اداروں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے مذید ایسے فیصلوں سے گریز کرنا ہوگا کہ لوگ دو وقت کی روٹی کو ترسنے لگیں ۔بلا شبہ ہم میں سے ہر ایک محب وطن ہے جو پاکستان کو فلاحی اور کامیاب ریاست دیکھنا چاہتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کچھ عناصر جو حکومت اور پلاسٹک انڈسٹری کے درمیان فاصلے اور لڑائی کا ماحول پیدا کرنے کی مسلسل کوشش میں ہیں حیران کن اور پریشان کن حالات کی عکاسی کرتی ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پی ٹی آئی کے سنیئر ذمہ داران کو فی الفور اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے ان ملک دشمن جو غیروں کے آلہ کار بن کر محب وطن لوگوں کے رزق پیچھے پڑے ہوئے ہیں ان کے آگے بند باندھیں کہیں ایسا نہ ہو دوسری انڈسٹریز کی طرح پلاسٹک انڈسٹری کے لوگ بھی فیکٹریاں بند کر کے سڑکوں پرآنے کیلئے مجبور ہوں ۔
خداراحکومت وقت کو فوری طور پر ڈوبتی معیشت کا خیال کرتے ہوئے شاپنگ بیگز کیلئے جاری منفی پراپیگنڈہ بند کرانا چاہئے تاکہ لاکھوں لوگوں کا روزگار جو اس انڈسٹری سے وابست ہ ہے وہ پر سکون ہوکر ملک و قوم کی خدمت کیلئے کوشاں رہیں ۔اہل فکرو دانش فکر منداں ہیں کہ یہ سب کاروباری حضرات محب وطن لوگ ہیں ان کے ساتھ مل کر باہمی مشاورت سے ماحول دوست بہتر فیصلے کیوں نہیں ہوسکتے جبکہ انہی حضرات کے ٹیکسوں پر ہمارے سرکاری آفیسران بڑے بڑے دفاتر میں اے سی،مہنگی گاڑیاں اور دیگر سہولیات دن رات لیتے اور مزے اڑاتے پائے جاتے ہیں وہ ان کی بات سننے کیلئے کیوں تیار نہیں۔
پلاسٹک بیگز ایسو سی ایشن سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ پلاسٹک بیگ ماحول دشمن ہونے کو وہ تسلیم کرتے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ اگر پلاسٹک کی موٹائی کو مقررہ شرح سے بڑھا دیا جائے تو وہ ایک مرتبہ استعمال ہونے کے بجائے کئی بار استعمال ہوگا۔ مہنگا ہونے کے سبب دوکاندار از خود پلاسٹک کے استعمال میں کمی پر زور دیں گے اور اس عرصے میں پلاسٹک کی صنعت اپنے لیے متبادل ذرائع تلاش کرلے گی ، لیکن یک جنشِ قلم اس طرح پوری صنعت کو بند کردینا اس صنعت کےسے جڑے افراد کا معاشی قتل ہے۔
پلاسٹک شاپنگ بیگز ایسوسی ایشن کے نمائندے شکوہ کناں کیوں ہیں کہ ان کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کی جاری ہے جناب وزیر اعظم سمیت دیگر ارباب اقتدار کو عقلمندی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ ہم پہلے ہی بہت سے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں کہیں ایسا نہ ہوکہ یکے بعد دیگرے ہمیں ہمارے اپنے ہی پیدا کردہ مسائل ایک طاقتور ریلے کی شکل اختیار کر کے ہمارا بچا کھچا بھی سب بہا لے جائے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ اداروں کو فوری پابند کیا جائے کہ وہ انڈسٹری کی نمائندگی اور مشاورت کے بغیر کسی قسم کا کوئی قانون نہ بنائے ۔اور نہ ہی ایسا کوئی قانون بنایا جائے جو ہماری مشکل میں پھنسی معیشت اور غریب عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کا سبب ہو۔