نیب کی جانب سے پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف سمیت ان کی فیملی اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس احتساب عدالت اسلام آباد میں دائر ہوئے اور فرد جرم بھی عائد کر دی گئیں‘ اب احتساب عدالت نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ان ریفرنسوں کی چھ ماہ کے اندر سماعت مکمل کرکے فیصلے صادر کرنے ہیں۔
احتساب عدالت کی کوشش ہوگی کہ ان ریفرنسوں کی کارروائی میں کوئی تاخیر نہ ہونے دی جائے تاکہ مقررہ مدت کے اندر کارروائی مکمل ہوسکے احتساب عدالت کے لیے یہ ایک مشکل چیلنج ہے کیونکہ ان ریفرنسوں میں بیسیوں گواہوں کے بیانات قلمبند ہونے ہیں جن پر وکلا ءنے جرح کرنی ہے اور پھر اپنے دلائل پیش کرنے ہیں عدالتی کارروائی مقررہ مدت میں اسی صورت مکمل ہو سکتی ہے کہ بغیر کسی التواءکے تسلسل کے ساتھ سماعت جاری رہے۔
اس کیس کے جملہ فریقین کی جانب سے ان ریفرنسوں کے حوالے سے پہلے ہی تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا اور اسے احتساب کے نام پر انتقامی کارروائی سے تعبیر کیا جارہا تھا جس کا جی ٹی روڈ سے لندن تک میاں نوازشریف اور مریم نواز نے شدید الفاظ کے ساتھ احتجاج ریکارڈکرایا۔ دوسری طرف مسلم لیگی ورکروں سمیت وزیروں اور مشیروں نے ہر تاریخ سماعت پر احتساب عدالت میں آنے کی حکمت عملی طے کی جس سے امن و امان کی صورتحال کنٹرول سے باہر ہونے کا خطرہ لاحق ہوا۔
پھر قوم نے دیکھا کہ رینجرز اہلکاروں نے از خود یا کسی کے زبانی آرڈر پر سکیورٹی کا انتظام سنبھالا اور وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال سمیت کچھ دیگر وزیروں اور مسلم لیگی عہدیداروںسمیت عدالتی کارروائی کی کوریج کے لیے آئے صحافیوں کو احاطہ عدالت میں جانے سے روک دیا تھا ‘ بے شک پورے ملک میں یہ گونج سنائی دی کہ احتساب عدالت کے باہر رینجرز اہلکاروں کی مجاز اتھارٹی کی اجازت کے بغیر تعیناتی بھی اختیارات سے تجاوز پر مبنی اقدام تھاجس کے پیش نظرریفرنسوں کی کارروائی کو انتقامی کارروائی ظاہر کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ہاتھ ایک اور ایشو آگیا۔
یہ صورتحال بلاشبہ مسلم لیگ (ن) اور اس کی وفاقی اور صوبائی حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ چیف جسٹس سید سجادعلی شاہ کے دور میں میاں نوازشریف کی سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی جانب سے عدالت پر کئے گئے حملے کا داغ ابھی تک مسلم لیگ (ن) کے دامن سے مٹ نہیں سکا ۔
ایسی پالیسی سے سیاسی محاذآرائی کی صورتحال مزید گمبھیر ہوتی ہے تو اس سے امن و امان کو کنٹرول کرنے کے نام پر ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوریت پر شب خون مارنے کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں اداروں کے ساتھ محاذآرائی سے امن و امان کی صورتحال بگڑتی ہے تو اس پالیسی سے سیدھا سیدھا جمہوریت کو اور ملک کو نقصان پہنچے گا جس کے تناظر میں مسلم لیگ (ن)کو ایسے حالات کی ذمہ داری سے خود کو بچانا مشکل ہو جائیگا۔
مگر ہمارا یہ اجتماعی المیہ ہے کہ ہماری سیاست میں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی روایت آج تک قائم ہی نہیں ھوسکی اگر مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف اور انکی فیملی کو اپنے خلاف دائر ریفرنسوں پر تحفظات ہیں تو انکے پاس مجاز عدالتی فورم پر اپیل کا حق موجود ہے۔ اس لئے انہیں عدالتی فورم پر اپنے خلاف دائر مقدمات کا قانونی طور پر دفاع کرنا چاہیے اور انصاف کی عملداری میں اپنے کامیاب ہونے کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے ۔
اسی تناظر میں مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں موجود کچھ سنجیدہ حلقے بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی اختیار کردہ ٹکراو ٔکی پالیسی پر حالت اضطراب میں نظر آتے ہیں جس کا اظہار گاہے بگاہے سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کر تے آ رہے ہیں۔ پاکستانی تاریخ میں منتخب سول حکومتوں پر ملبہ ڈالنا تو بہت آسان ہوتا ہے مگر جمہوریت مخالف سوچ رکھنے والوں کیلئے اس حقیقت کا اعتراف کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ ملک کی منتخب سول حکومتوں کے دور میں ہی آمر حکمرانوں کی پیدا کردہ پیشمانیوںاور ناکامیوں کا ازالہ کرنے اور ملک کو تجارتی و معاشی ترقی کی طرف لے جانے کی کامیاب کوششیں کی ھوتی رہی ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک کی منتخب جمہوری حکومت ہی نے بھٹو کی قیادت میں بھارت کے جنگی قیدی بنے ہمارے 90 ہزار فوجی جوانوں اور دوسرے شہریوں کے علاوہ دشمن کے قبضے میں جانیوالی ہماری سرزمین کی بازیابی کی کامیاب حکمت عملی طے کرکے قومی پشیمانیوں میں کمی کا بندوبست کیا گیا تھا۔ پھر منتخب جمہوری حکومت نے ہی میاں نوازشریف کی قیادت میں دشمن کے روبرو اس وطن عزیز کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرکے مکار دشمن کیلئے ناقابل تسخیر بنایا۔ پھر اس وطن عزیز کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات دلانے کیلئے آصف علی زرداری کی زیرقیادت پیپلزپارٹی کی حکومت نے آپریشن راہ راست اور آپریشن راہ نجات کا آغاز کیا جبکہ میاں نوازشریف کی زیرقیادت مسلم لیگ (ن) کی جمہوری حکومت نے آپریشن ضرب عضب اور اب آپریشن ردالفساد کے ذریعے دہشت گردوں کی صفائی کا مشن جاری رکھا ہوا ہے۔
بلا شبہ یہ جملہ آپریشنز ہماری بہادر افواج سمیت دیگر سکیورٹی فورسز نے ہی کامیاب بنائے ہیں جن میں انہیں بھاری جانی و مالی نقصانات بھی اٹھانا پڑے ہیں۔ ان آپریشنز کی بنیاد پر آج ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے ذریعے ملک کی اقتصادی اور معاشی ترقی کے راستے کھلتے نظر آرہے ہیں تو اس کا کریڈٹ بھی منتخب جمہوری حکومت ہی کو جاتا ہے جس کی آمریت کے مقابلہ میں بہتر پالیسیوں کے ثمرات سی پیک کی شکل میں قوم کو ملتے نظر آرہے ہیں اور دہشت گردوں کی کمر ٹوٹنے سے ملک بالخصوص کراچی میں امن و امان کی صورتحال بھی بحال ہورہی ہے ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک آج اپنی سلامتی کے تحفظ کے حوالے سے بیرونی جارحیت کے سنگین خطرات میں گھرا ہوا ہے جس کی نشاندہی آرمی چیف نے بھی کی ہے اس لئے آج اولین ترجیح ملک کی سلامتی کے تحفظ کے اقدامات اٹھانے کی ہے جس کیلئے افواج پاکستان نے ہی اپنا پیشہ ورانہ آئینی کردار ادا کرنا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ خود غرضی کی سیاست سے تائب ہونا ہوگاکیونکہ ایسی نامرادسیاست کا خمیازہ آمریتی حکمرانی کی صورت میں ملک اور عوام کو ایک لمبے عرصے کیلئے بھگتنا پڑتا ہے اور جمہوریت کے نام لیوا سیاست دانوں کے ہاتھوں سے جمہوریت کی گاڑی بھی چھوٹ جاتی ہے جسے دوبارہ ٹریک پر لانے کیلئے انہیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر سالہا سال جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ یہی تاریخ کا وہ سبق ہے جو اپنی مفاداتی سیاست کے تحت جمہوریت کا کھوڑا تہس نہس کرنے کی راہ پر گامزن سیاست دانوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں