The news is by your side.

قصور کی زینب کی قصوروار پنجاب پولیس

مسلمان رسول اللہ ﷺ اور آپکے جانثار صحابہ کرام ؓ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی اولاد وں کے نام صحابہ کرام ؓاور اہل بیت اطہارؓ کے مقدس ناموں پر حصول برکت کے پیش نظر رکھتے ہیں۔ قصور کے امین احمد انصاری نے بھی اپنی بیٹی کا نام حضرت زینب ؓ کے مبارک نام کی نسبت سے رکھا ۔

آج رسول اللہﷺ کی امتی بیٹی سات سالہ زینب کوعظیم صوفی بزرگ بابا بھلے شاہ کے شہر قصور میں درندے نے بے رحمی کے ساتھ اپنے شیطان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے زیادتی کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا۔ زیادتی کے بعد قتل ہونے والی بچی زینب کا والد امین احمد انصاری ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹر رائے ونڈ روڈ میں سٹور کیپر ہے‘ وہ اپنی بیوی کے ہمراہ 21 دسمبر 2017کو عمرے کے لئے سعودی عرب گیا تھااس کا بڑا بیٹا 18 سالہ ابوذر امین ایف ایس سی کا طالب علم ہے جبکہ اس کی دو بیٹیاں تھیں۔ جن میں زینب الفاروق سکول منیر شہید کالونی کوٹ شیر باز خان میں زیر تعلیم تھی ۔

واقعہ کے روز وہ گھر سے ساتھ والی گلی میں رہائش پذیر اپنی خالہ کے گھر سپارہ پڑھنے جارہی تھی کہ اسے اغوا کرلیا گیا اور 4 روز بعد اس کی خالی پلاٹ کوڑے کے ڈھیر سے لاش ملی ۔سات سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کرنے اور نعش کوڑے کے ڈھیر سے ملنے کے دلخراش واقعہ پر جہاں ایک طرف پولیس کی روایتی بے حسی و ہٹ دھرمی دیکھنے میں آئی تو دوسری طرف پولیس فائرنگ سے مظاہرین کی ہلاکتوں کی وجہ سے مشتعل ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے قائم کی گئی پنجاب حکومت کے اینٹی رائٹ فورس کی تشکیل کے بلندوبانگ دعووں کی بھی حقیقت واضح ہو گئی ۔

ہمارے انصاف کے نظام کی حالت یہ ہے کہ اگر یہاں خدانخواستہ کسی وڈیرے،سیاست دان، جج یا جرنیل کی بیٹی ہوتی تو اب تک مجرم انجام کو پہنچ چکا ہوتامگر یہاں قانون اور عدالتیں صرف غریبوں کو الٹا لٹکانے کے لیے ہیں اور شاہ رخ جتوئی جیسے قاتل بری ہو جاتے ہیں ۔دکھ اور کرب کی کیفیت صرف غریب کے حصے میں رہ گئی ہے‘ انصاف کے حصول کے لیے مشکلات کا سامنا صرف غریب کی بیٹیوں کا مقدر ہے مگر اے ارباب اقتدار یا د رہے کہ اللہ ہی سب سے بڑا انتقام لینے والا ہے۔

قارئین کرام اب تک کی اخباری رپورٹس کے مطابق پاکستان بھر میں معصوم بچیوں کے اغواءاور زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے گزشتہ ایک سال کے دوران 2017 ءمیں 3 ہزار 1 سو 47 بچیوں و خواتین کو زیادتی جبکہ 1 سو 86 بچیوں و خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔صرف قصور بابا بھلے شاہ ؒکی نگری میں ایک برس کے دوران 12 بچوں کے اغوا، زیادتی اور قتل کے واقعات صرف 2 کلومیٹر کے ایریا میں رونما ہو چکے ہیں مگر پولیس نے معاملہ ختم کرنے کے لیے گزشتہ ماہ ایک شخص کو پولیس مقابلے میں پارکرکے بڑا معرکہ سر کرنے کا ڈھنڈورا پیٹا کہ بچیوں کے ساتھ زیادتی و قتل کے ملزم کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ہے مگر پھر ایک اور انسانیت سوز واقعہ رونما ہو ا جس سے ہر دل دکھی اور کلیجہ منہ کو آیا۔

ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے بالخصوص پنجاب پولیس کے ذمہ داران کو شاباش ہے کہ عمرہ کی سعادت کے لیے سعودی عرب گئے میاں بیوی کی کمسن سات سالہ بیٹی اغواءہوئی اور چار روز بعد اس کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ورثا کو تلاش کے دوران مل گئی لیکن پولیس بچی کے اغواءکے بعد اسے بازیاب کرانے کی بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش تماشائی بنی رہی جبکہ بچی کے اغواءکے اگلے روز ہی ورثاءنے خود قصور پیروالا روڈ پر واقعہ الخلیل بیکری کے باہر لگے سی سی ٹی وی کیمرے سے بچی کو لے جاتے ہوئے ایک شخص کی فوٹیج حاصل کی اور پولیس کو فراہم کی مگر پولیس روایتی ہٹ دھرمی میں مگن رہی۔

متاثرہ زینب کے بڑے بھائی ابوذر امین نے صحافیوں کو بتایا کہ ڈی پی او قصور ذوالفقار علی سرکاری گاڑی میں جائے وقوعہ پر تو آئے لیکن گاڑی سے نیچے نہ اترے اورکہا کہ وہاں سے بدبو آ رہی ہے۔پنجاب پولیس کی اس روایتی بے حسی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ کرپٹ اور نااہل پولیس کے سب سے بڑے شکار خود عوام ہیں۔ ہم جسے ووٹ دیتے ہیں اس سے ان اداروں کی ساکھ اوت بہتری کا سوال نہیں کرتے۔ ووٹ بھی ہمارا اور ضرورت پڑنے پر ان نا اہل سیاستدانوں کی منتیں بھی ہم عوام ہی کرتے ہیں ۔یہ خیر اور شر کے حوالے سے ہم پر مسلط جاہل کرپٹ لوگ مرجائیں گے لیکن یہ محکمہ کبھی ٹھیک نہیں کریں گے۔

اگر آپ لوگوں نے اپنی اپنی زینب کو بربریت کا شکار ہونے سے بچانا ہے تو یا تواپنے دروازے انک ے لیے بند کر دیں یا پھر ان حکمرانوں کا گلا گھونٹ دیں۔پنجاب بھر میں تقریباً ایک برس کے دوران 900فراد کو ریپ ، گینگ ریپ اور زیادتی کانشانہ بنایا گیا جوکہ ماضی کے مقابلے میں ریپ ، گینگ ریپ اور زیادتی کی وارداتوں میں 200فیصد اضافہ ہے ریپ ،گینگ ریپ اور زیادتی کا نشانہ بننے والوں میں خواتین اورلڑکیوں کے ساتھ ساتھ ننھے بچوں اور بچیوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے متعدد افراد کو مبینہ طور پر گن پوائنٹ اور نشہ آور شربت وغیرہ پلا کر زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

درندہ صفت انسان نما شیطانوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف پنجاب کے مختلف اضلاع کے تھانوں میں مقدمات بھی درج ہوئے لیکن ان کے کیسز مختلف عدالتوں میں ہمارے تھکے ہارے عدالتی نظام کے پیش خدمت ہیں جہاں ایسے کیسسزکو طوالت دی اور دلائی دو ہی وجہ سے جاتی ہے ‘ نمبر ایک وکلاءکو ملی بھگت سے فریقین سے بھاری فیسیں کھانا ہوتی ہیں جب ان وکلاءکو پتہ چلتا ہے کہ متاثرہ فریقین ان کے چیمبرز کے چکر لگا لگا کر تھگ گئے اور فریقین کی جیب بھی ہلکی ہو چکی تو پھر نمبردو پالیسی متعارف کرانے کی کوششیں شروع ہوتی ہیں جس میں فریقین کو پریکٹس کے عین مطابق کہا جاتا ہے کہ دونوں پارٹیاں سمجھوتہ ایکسپریس پر بیٹھیں اور معاملہ ختم کر دیں کیونکہ پہلے ہی اخراجات بہت ہوچکے ہیں ۔

یہ کام ماتحت عدالتوں میں اپنے عروج پر سالہاسال سے بدرجہ اتم موجود ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ 12 ستمبر 2013ءمیں مغل پورہ لاہور کی پانچ سالہ بچی سنبل کے اغواءاور زیادتی کا واقعہ بھی سامنے آیا تھا تو اس وقت بھی پاکستان کے تمام بڑوں نے فوری نوٹس اور ایکشن کے بیانات داغے تھے ‘باوجود اس کے تاحال ملزم آزاد پھر رہے ہیں اور متاثرین کا کوئی پرسان حال نہیں۔اب کی بار بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی زعماءودیگر لفظی بیان بازی کھیل کر اپنی جماعت اور اپنی پوزیشن واضح کرنے پر لگے ہوئے ہیں اس ساری کیفیت کے پیش نظر مجھے یہ کہنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ مذکورہ کیس پر بھی تمام حکام اسی مغل پورہ واقعہ کی تاریخ دہرا رہے ہیں۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں