کیا اس حقیقت کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے اپنے شہریوں کی جان و مال کو داؤ پر لگا کر دہشت گردی کی جنگ سے نبرد آزما ہونے کے اقدامات کیے جبکہ آج بھی پاکستانی سکیورٹی فورسز دہشت گردوں اور ان کے حامیوں و سہولت کاروں کے خلاف بلاامتیاز آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔چین سمیت پوری دنیا پاکستان کے اس قابل فخر کردار کی معترف ہے ۔چین اور روس کی طرف سے عالمی قوتوں پر زور بھی دیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمہ اور خطے میں قیام امن کیلئے پاکستان کے قابل تقلید مثبت کردار کو تسلیم کریں۔مگرمقام افسوس ہے کہ امریکہ کی طرف سے نہ صرف پاکستان کے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے بلکہ پاکستان پر حملوں کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں ۔
حالیہ دنوں میں پیدا ہونے والی موجودہ صورتحال ہماری سول اور عسکری قیادتوں سے ملک کے دفاع اور کسی بھی بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی ٹھوس حکمت عملی تشکیل دینے کا تقاضا کرتی ہے۔پاکستان میں متعین امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے ملاقات میں سپہ سالار جنرل قمر باجوہ نے کہاکہ پاکستان امریکہ سے کسی قسم کی مالی یا فوجی امداد کا خواہاں نہیں بلکہ ہمیں امریکہ کی طرف سے محض دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کا اعتراف اور اعتماد درکار ہے ۔
افغانستان میں طویل عرصے سے جاری جنگ کے مسئلے کو منطقی انجام تک پہنچانے اور امن کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان مضبوط تعاون ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔پاکستان نے کئی دہائیوں سے جو کردار ادا کیا ہے اسے یقیناً تسلیم کیا جانا چاہئے افغانستان میں جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے باہمی اعتماد کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی دوسرے ملک سے بڑھ کر پاکستان‘ افغانستان میں امن کا خواہش مند ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ا مریکی سفیرنے کہا ہے کہ ان کا ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو اہمیت دیتا ہے اور افغان مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کا تعاون درکار ہے ۔ وزیرِ خارجہ خواجہ آصف نے امریکی صدر کی تقریر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے باور کرایا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے اپنے خون اور پیسے سے جنگ لڑی ہے امریکہ سے کوئی پیسے نہیں لئے جتنی قربانیاں ہم نے دیں کسی قوم نے نہیں دیں ہم نے اپنے علاقہ سے تمام دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے ٹرمپ انتظامیہ کو جہاں دہشت گردوں کی موجودگی کا شک ہے وہ ہمارے ساتھ چل کر اس کی نشاندہی کریں ہم ان دہشت گردوں کا صفایا کریں گے۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ امریکہ ہمیں کہے کہ انہیں مارو اور ساتھ ہی یہ بھی کہے کہ ان سے ہماری بات کراؤ۔یہ دونوں متضاد کام بیک وقت کیسے ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف چین نے امریکی صدر کی پاکستان پر الزام تراشی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بہت بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ عالمی برادری کو پاکستان کی قربانیوں اور کردار کا اعتراف کرنا چاہیے۔
قارئین کرام امریکہ اور درجنوں دوسرے ملکوں کی نیٹوافواج کی جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ افغانستان میں موجودگی کے باوجود اس ملک کے 42 فیصد حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے تو یہ ان جملہ نیٹو ممالک کی ناکامی ہے جبکہ پاکستان از خودپاک افغان سرحد پر باڑ لگا رہا ہے اور 8 سو سے زائد چوکیاں بھی قائم کرچکا ہے باوجود اس کے پاکستان کو مورد الزام ٹھرانا سمجھ سے بالا تر ہے۔ امریکہ کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان امریکی اتحادی ہے اس لئے اعتماد کے ساتھ مل کر جنگ لڑے پاکستان کوٹرمپ کی اعلان کردہ جنوبی ایشیائی و افغان پالیسی کی پروا کئے بغیر دہشت گردی کیخلاف جنگ جاری رکھنا ہوگی۔
ٹرمپ بیان اور افغان پالیسی کے خلاف قومی اسمبلی میں مذمتی قرارداد منظور
پاکستان کو اقوام عالم پر واضح کر دینا ہوگا کہ ہم امریکہ یا کسی اور کی خوشنودی کیلئے نہیں بلکہ اپنے ارض وطن کی سلامتی اور قیام امن کیلئے دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑ رہے ہیں جس کی ہم بہت بڑی قیمت پہلے ہی ادا کر چکے ہیں۔امریکی صدر کی طرف سے پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام اوراسی تناظر میں سخت نقصان اٹھانے کی دھمکی کو بلا شبہ تمام سیاسی اور عسکری قیادتوں نے گہری سنجیدگی سے لیا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ٹرمپ اس خطہ میں بھارت کو خوش کرنے کیلئے ہندو بنیے کے انداز میں پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کی ناکام کوشش میں ہے۔
اگر امریکہ اور انڈیا افغانستان میں خلوص نیت کے ساتھ امن قائم کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں پاکستان کے بجائے افغانستان پر توجہ دینے اور وہاں پاکستان سے بھاگ کر آئے ہوئے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر آپریشن کرنے کی ضرورت ہے ۔اس حوالے سے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے امریکہ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے باور کرایا کہ دہشتگردی کی جنگ میں سب سے زیادہ پاکستان نے ہی قربانیاں دی ہیں جس میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 73 ہزار شہری اب تک اس جنگ میں شہید ہوچکے۔
میری ناقص رائے کے مطابق وقت آ چکا ہے کہ افغان جنگ اب امریکہ کو خود لڑنے دی جائے اور پاکستان کو بہرصورت اپنی سلامتی کا تحفظ یقینی بنانا چاہے۔ٹرمپ کی دھمکی پر سیاسی اور عسکری سربراہوں کا ملکی سلامتی کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور جاندار موقف خوش آئندبات ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت فوری طور پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا کر عالمی قوتوں کو کھلا اور واضح پیغام دے کیونکہ ملکی سلامتی کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آ ج ہمارے لئے کسی بھی غلطی کی کوئی گنجائش نہ ہے۔
اس وقت سوائے چین کے بھارت‘ افغانستان اور ایران سمیت ہر سرحد پر ہمارے خلاف محاذ کھلے نظر آتے ہیں جن میں سر فہرست بھارت اور افغانستان عملاً امریکہ کے تابعدار بن کر ہماری سلامتی پر حملہ آور ہونے کی بدنیتی کا بار بار اعلانیہ اظہار کرچکے ہیں جبکہ ایران کو بھی بھارت ہی پاکستان کے معاملہ میں بدگمان کررہا ہے۔ بے شک آج چین ہر بیرونی جارحیت اور ہر نئی مشکل سے جان چھڑانے کیلئے ہمارے کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہے جو کشمیر اور سی پیک کے ایشوز پر ہمارا سب سے بڑا سپورٹرہے اس کے باوجود جارحیت پر تیار اندرونی اور بیرونی عناصر سے ہم نے خود ہی نبٹنا ہے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں