The news is by your side.

کراچی سے اٹھتے لاشے، ذمہ دار کون؟

کراچی کی بابت کیا لکھنا کیا بولنا سبھی جانتے ہیں، بلکہ خوب اچھے سے جانتے ہیں۔ گزرے تین دن الگ طرح کی اذیت میں گزرے، پرسوں شب نو بجے بتی گئی کل رات آٹھ بجے آئی دس بجے دوبارہ روٹھ گئی۔

گھر سے دفتر پہنچنا ایک ایسا مرحلہ ہے کہ اچھے اچھوں کے چھکے اڑا دے صرف یونی

ورسٹی روڈ نیپا سے پیپلز سیکریٹریٹ تک تین مقامات پانی سے لبالب ملے جس میں سفر کرنا اپنی جان سے کھیلنا جیسا ہے، ظاھر ہے ان دنوں میں صرف وہی لوگ گھروں سے نکلے جن کا اس کے بغیر گزارا نہیں۔

پانی میں تیرتے تین جوانوں کے لاشے اور ان کے انتقال کے کرب ناک مناظر آپ سب نے دیکھ ہی لیے ہوں گے، دس بارہ دن پہلے یونہی دو بچے جان کی بازی ہارے تھے، گزشتہ اور موجودہ بارش میں کرنٹ لگنے اور دیگر حادثات کے سبب ہلاکتوں کی تعداد پچاس تک پہنچ چکی۔

جی ہاں! کتنی معمولی بات لگتی ہے نہ کہ مختلف گھروں کے پچاس چشم و چراغ چشم زدن میں دنیا چھوڑ گئے، مگر لہو کس کے ہاتھ پہ تلاش کریں ؟؟؟ جنہیں ووٹ دئیے ؟؟؟ جنہیں اپنا سمجھا ؟؟؟ یا جن اداروں کو جی بھر کے ٹیکس و بل ادا کرتے ہیں ؟ مان لیجئے کہ سخاوت و فیاضی میں پہلے نمبر پہ کھڑے شہر کے لوگ بے بسی کی تصویر ہیں، شہر میں جابجا سیلابی ریلے ہیں بہتی گاڑیاں ہیں ڈوبتے گھر ہیں اور بے یارو مددگار پڑے جواں سال لاشے۔

کاش یہ لاشے کسی صاحبِ اقتدار، وفاقی یا صوبائی وزیر، کسی جج یا اورکسی کے بچوں کے ہوتے تو کہرام بھی مچتا بات بھی ہوتی حق بھی مل جاتا ، لیکن افسوس یہ لاشے میرے آپ کے جیسے بے کس انسانوں کے ہیں جنہیں یہ نظام کتے بلے سے بڑھ کر اہمیت نہیں دیتا۔

وہ ساون رت جس کی یاد میں گیت ہیں جس کی آمد ہمیشہ رومان سے جڑی ہے جو محبتوں کا موسم ہے، مدت سے یہاں خوف عذاب اور مصیبت کا پیام لاتی ہے کراچی اور بارش یہ دو الفاظ شہریوں کی جان نکال دیتے ہیں ندی نالے ٹوٹے بند سیلاب حادثات غرض تباہی کا دوسرا نام کراچی میں بارش کہلاتا ہے۔

میرے پاکستان کے باسیو
کراچی سسک رہا ہے
کراچی ٹوٹ رہا ہے
کراچی زندگ ہار رہا ہے
کراچی کرچی کرچی ہے

کراچی جو اپنا دامن پشتون بلوچ پنجابی بنگالی افغانی برمی اور ہندوستانی کے لیے کھولے رکھتا ہے، آج تہی دامن ہے وہ اس بلکتے ہوئے بچے کی مانند ہے جو اپنے باپ سے میلے میں بچھڑ چکا ہو۔

کیا پاکستانی اس گمشدہ روتے بچے کو گلے لگائیں گے ؟؟؟ کیا وہ اسے اس کے وہی دن لوٹانے میں مدد کریں گے جب یہ شہر ہر ایک کو گلے لگاتا تھا اپناتا تھا آباد کرتا تھا ۔۔۔۔۔ زندگی کی علامت تھا۔

کراچی صرف کراچی والوں کا مسئلہ نہیں یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے اور خاص طور پہ ان لوگوں کا جو باھر سے آئے، یہاں بسے ، کاروبار کیا، زندگیاں بدلیں اور خوشحال ہوئے۔

آگے بڑھیں کراچی کو اتنا ہی اہم جانیں جتنادیگر ملکی مسائل ہیں، کراچی چلے گا تو پاکستان دوڑے گا ، کراچی رکے گا تو پاکستان رک جائے گا ۔۔۔۔۔ ہر فرد آگے بڑھے اور اس شہر کو مشکل سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرے ۔۔۔ یہی کراچی والوں کی صدا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں