The news is by your side.

میاں صاحب! کلبھوشن کے بارے میں کیا خیال ہے

سابق وزیراعظم نوازشریف نےایک بارپھربھارت سےدوستی نبھاتے ہوئے پاکستانیوں کوہی ممبئی دہشت گردی کاذمہ دارٹھہرادیا، اس متنازعہ انٹرویو کے سبب ایک بار پھر بھارتی میڈیا کو ہمارے ملک کے خلاف زہر اگلنے کا موقع مل گیا ہے۔بھارتی میڈیانے یہاں تک سرخیاں جمادیں کہ سابق پاکستانی وزیراعظم نےاعتراف کرلیا ہے کہ ممبئی میں حملہ کرنےوالےدہشت گرد پاکستان سےآئےتھے، حالانکہ بھارت یہ مقدمہ کب کا نمٹا چکا ہے اور وہ کسی بھی طور اس حملے میں پاکستان پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہے تھے۔

بھارتی سرکار کے تعاون سے افغان حکومت بلوچ علیحدگی پسندوں اورعمر خالد خراسانی وغیرہ کی سرپرستی کرتی رہی ہے ۔ ان کے حملوں میں ایک سو پچاس نہیں ایک ہزار پچاس سے بھی زائد پاکستانی مارے گئے، مکتی باہنی کو انڈین معاونت حاصل رہی ،ایم کیو ایم کے بعض عسکریت پسند دلی سرکار سے جڑے رہے ۔ دنیا کے کئی ممالک میں سی آئی اے نے مداخلت کی، من پسند افراد کو اقتدار دلایا اس دوران جو قتل وغارت گری ہوئی وہ الگ پہلو ہے ۔اسرائیل درجنوں فلسطینوں کو دبئی اورملائشیاء سمیت کئی ممالک میں شہید کرچکا ہے۔

روس نے اپنے منحرف استخباراتی ارکان کو یورپ میں قتل کرایا ۔سابق شیشانی صدر زیلم خان انداربے کو قطر میں شہید کیا لیکن آپ یقین مانئیے ان میں سے کسی ایک ملک کے صدر یا وزیر اعظم نے کبھی دنیا کے سامنے اعتراف نہیں کیا کہ یہ سب ہمارے کارنامے ہیں ، ہاں دنیا جانتی ہے کہتی ہے بولتی ہے مگر کوئی اپنے جرم نہیں قبولتا ۔۔ خفیہ ادارے دنیا بھر میں ایک جیسے ہوتے ہیں ۔

میاں صاحب ، اسٹیبلشمنٹ سے ہمارا اختلاف بھی ہے۔ اقتدار پہ آمروں کے قبضے کی کوشش کو پسندیدہ نظروں سے پاکستانیوں کی اکثریت نے کبھی نہیں دیکھا لیکن اس کے باوجود بہتر ہوتا کہ یہ گندے پوتڑے گھر ہی میں دھوئے جاتے ،یہاں آپ انہیں جس طرح سے بھی ڈیل کریں، پروا نہیں کیونکہ گھر کا معاملہ ہے لیکن دشمنوں کے محلے میں گھر کے گواہی نقصان دہ ثابت ہوگی ، یہ بات بھی یاد رہے کہ ممبئی پہ اپنے کرب کا اظہار کرنے سے پہلے آپ کلبھوشن کو یاد کرلیتے جو پاکستانی مسلمانوں کا مستند قاتل ہے تو آپ کی بات شاید کہیں کسی درجے پر قابلِ پذیرائی ٹھہرتی بھی لیکن آپ اپنی ذات کو بچانے کے لیے پاکستان کے ازلی دشمن کے ایسے بے بنیاد موقف کی تائید کرنے لگے ہیں جسے آج تک وہ خود بھی ثابت نہیں کرپایا ۔

دوسری جانب ملک کے مقتدر حلقوں کو بھی دیکھنا ہوگا کہ کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کہ پہلے دن سے آج تلک کسی وزیر اعظم کی آپ سے نہیں بنی ، اصلاح کی گنجائش ہر حال میں اور ہر جگہ موجود رہتی ہے لیکن ملکی سالمیت پر کسی صورت سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔

نواز شریف سے ہمیں بھی اختلاف ہے بلکہ بہت زیادہ ہے۔نواز شریف کرپٹ ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں، انہیں اپنے منصب سے ہٹنا ہی چا ہیے تھا کہ وہ نا اہل ہیں ۔ اب اس کے آگے کا میدان انتہائی احتیاط سے سر کرنا بے حد ضروری ہے۔ ورنہ ایسا نہ ہوکہ وہ بھی پاکستان میں بھٹو بن جائے جو آج بھی زندہ ہے ۔پاکستانی ویسے بھی نسیان کے مرض میں مبتلا ہیں۔ ایسا نہ ہوکہ کسی معمولی غلطی کے سبب کل کلاں کو ان کی کرپشن بھول کر مظلومیت کا ووٹ ہی نہ پکڑا دیں ۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں