آج سے کوئی 11 سال قبل سنہ دو ہزار آٹھ میں ہونے والی بارش میری یاداشت کے مطابق کراچی شہر کی بدترین اور ہلاکت خیز بارش تھی کہ ہلاکتوں کی تعداد سو سے اوپر پہنچ چکی تھی بیشتر افراد کرنٹ لگنے یا ہورڈنگز گرنے کے سبب جان سے گئے ، خدا کا شکر ہے کہ اس کے بعد عدالت نے ان دیو ہیکل بورڈز کی تنصیب کا سخت نوٹس لیا بتدریج ہماری جان چھوٹی مگر کرنٹ کے مسئلے کا حل تاحال نہ نکل سکا ۔
شاید اسکی سب سے اہم وجہ کے الیکٹرک کا ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کو نوازنا ہو، تاہم اس کی ایک بڑی حقیقی وجہ شہریوں کی بد احتیاطی بھی ہے۔ اس دوران سال دو سال کے فرق سے ہونے والی بارشوں میں وہی علاقے زیادہ تباہی کا نشانہ بنتے رہے ہیں جوامسال بھی بنے ہیں۔ کچی آبادیاں ، نالوں پہ پکی تعمیرات اور نیم دلی سے بنائے گئے ڈیم سرکاری اداروں کی رشوت ستانی کے عوض خاموشی سیاسی مفادات ، ان سب نے مل کر اس شہر کو کہیں کا نہ چھوڑا ہے ۔
جب گزشتہ بارش میں سیاسی ضرورت تھی تو عزت مآب عارف علوی تین فٹ پانی میں تیرہ فٹ طویل کشتی لے کر اتر گئے تھے لیکن آج راوی ان کے نصیب میں چین لکھتا ہے تو بیوی بچوں کے ساتھ اسلام آباد کے مہنگے علاقے میں ٹریفک بند کراکے روٹیاں توڑ رہے ہیں ۔
کراچی کی حالت پہ اب افسوس بھی نہیں ہوتا بے حسی سی ہے جو قلب و ذہن کو جکڑ چکی ہے کراچی میں جہاں راقم الحروف کی رہائش ہے اس علاقے میں اور اس سے متصل قریبی مرکزی سڑک سے بارش کاپانی عمدہ ڈرینیج سسٹم کے سبب مکمل طور نکل چکا ہے ،البتہ بتی ایسےہی غائب ہے جیسا کہ کراچی کی حالیہ صورتحال میں تحریک انصاف کے نمائندے غائب ہیں۔
پچھلے پندرہ دن یہاں کراچی سے کافی دور کوٹلی بالا مانسہرہ میں گزارے جہاں چوبیس میں سے پچیس گھنٹے بارش رہتی ہے ،پانی تو چلیں اس واسطے نہیں رکتاکہ پہاڑی علاقہ ہے لیکن لائٹ اس طوفانی بارش میں بھی سنگ رہتی ہے یا زیادہ سے زیادہ کچھ خاص وقت کے لیے روٹھ جاتی ہے لیکن پھر اچھی محبوبہ کی طرح مان کر واپس بھی آجاتی ہے،لیکن کیا کریں یہاں شہر قائد کے تو دکھڑے ہی اور ہیں۔
مانسہرہ سے جس ٹرین کے ذریعے واپسی تھی اسے پیر کی صبح دس بجے کراچی پہنچنا تھا اور وہ بھلی مشین رات نو بجے کینٹ اسٹیشن پہنچی تو حال یہ تھا کہ ٹرین کے واش روم میں پانی تھا اور نہ ہی اسٹیشن پر کوئی تسلی دینے والا ۔ عورتیں بچے بزرگ رلتے رہے لیکن کسی کو کیا فرق پڑتا ہے ۔
خیر کہنے کا مقصد بس اتنا سا ہے کہ اگلے برس اور اس سے اگلے برس جب بھی بارش ہوئی معاملہ یونہی رہے گا کیونکہ یہ ملک ستر سال سے نازک صورتحال سے گزر رہا ہے ، خاکم بہ دہن آئندہ کے ستر بھی ایسے ہی گزریں گے ۔