The news is by your side.

اٹک کا ساغر صدیقی اور اکادمی ادیبات کی بے حسی

سید حب دار قائم


” چاند سے دیا جلاتے ہیں “ کا مصنف خالد عنبر بیزار اٹک کا ” ساغر صدیقی “ ہے جسے زمانے کی بے اعتنائیوں نے اور وقت کے طوفانوں نے پہلے زخمی کیا اور بعد میں اپاہج کر کے ویل چیئر پر بٹھا دیا ہے ۔ 2000 ءکی دہائی میں اُردو اَدب کے اُفق پر اٹھتا ہوا یہ ستارہ ایسا روشن ہوا کہ ادبی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ۔ عطاءاللہ خان عیسیٰ خیلوی کی ادبی تنظیم ” سانول سنگت “ کی ذیلی شاخ کا اٹک میں قیام عمل میں لایا گیا اور طرحی مصرعوں پر طبع آزمائی کی گئی جن میں خالد بے زار کا لب و لہجہ سب سے جدا گا نہ تھا ۔ لہجے کی شائستگی اُس کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہوئی صاف دکھائی دیتی تھی ۔ خالد عنبر بیزار شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اُردو اَدب کا دلدادہ تھا ۔ مطالعہ اُس کے رگ وپے میں شامل تھا ۔

پھر یوں ہوا کہ ” آغاز ِ عروج پر ہی اُسے پاؤں پر معمولی چوٹ لگی اور زخم ناسور بن گیا ۔ مرض اور معاشرے کی بے حسی جیت گئی اور غربت ہار گئی ۔ مناسب علاج نہ کرا سکا تو ناسور پھیل گیا ڈاکٹروں سے مدد لی تو انہوں نے ٹانگ ہی کاٹ دی ۔ ٹانگ کٹی تو حساس دِل ٹوٹ گیا کیونکہ بوڑھے ماں باپ کا سہارا تھا ۔ جب سہارے ٹوٹ جاتے ہیں تو دِل و دماغ کہاں بس میں رہتے ہیں ۔ یہی ہوا خالد عنبر بیزار بھی ہوش و حواس کھو بیٹھا اور ویل چیئر پر غربت و افلاس نے ایسا بٹھایا کہ اَب تک نہ اُٹھ سکا ۔

” اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے “ کے مصداق خالد عنبر بیزار کا کوئی ادیب دوست اسی تاک میں بیٹھا تھا ۔ موقع ملتے ہی وہ خالد عنبر بیزار کے پاس آیا اور اس سے کلام شائع کرانے کی غرض سے مانگا اور لے گیا جس کا آج تک پتہ نہیں چل سکا ۔ ” چاندنی سے دیا جلاتے ہیں “ میں جو شاعری چھپی ہے وہ کہیں نہ کہیں کیسٹوں میں یا اخبارات میں محفوظ تھی جس کو اکھٹا کر کے اَدب دوست شخصیات نے مل کر شائع کرایا جن میں ملک ممریز خان ، ملک محمد عثمان ، معروف کالم نگار شہزاد حسین بھٹی ، حافظ عبدالحمید ، نعیم شاہ ایڈووکیٹ ، نوید احمد ، محمود اے غزنوی ، فیاض احمد قریشی ، ناصر بنگش ، ڈاکٹر پرویز اقبال او ڈاکٹر فدا حسین شامل ہیں ۔

مجھے یقین ہے کہ خالد عنبر بیزار کی کتاب اکادمی ادیبات تک پہنچ گئی ہو گی اور اُنہوں نے خالد عنبر بیزار کا وظیفہ مقرر کر دیا ہو گا ۔ میں جانتا ہوں کہ کئی امیر اَدیب اس اکادمی سے و ظائف پا کر فیض یاب ہو رہے ہیں اور اگر خالد عنبر بیزار کا وظیفہ شروع نہیں ہوا تو اٹک کے ادیب گزارش کر رہے ہیں کہ اکادمی ادبیات خالد عنبر بیزار کی مالی مدد کرے اور اس کا مناسب علاج بھی کرائے یا اکادمی کے علاوہ جو افراد یہ تبصرہ پڑھیں وہ اٹک کے ” ساغر صدیقی “ خالد عنبر بیزار کی مالی معاونت کر کے گلستانِ اَدب کے اس مرجھائے ہوئے پھول کی پذیرائی فرمائیں ۔

آئیے ! خالد عنبر بیزار کے فن پر نظر دوڑائیں جس کو میں نے بالا ستعیاب دیکھا ہے ۔ خالقِ کائنات کی محبت سے سرشار خالد عنبر بیزار کے نگار خانہ شعر میں ڈھلے فن پاروں کے عکس ہائے جمیل ملاحظہ فرمائیے ۔

گلاب شاخوں پہ رقصاں ، بہار ، بادِ خزاں
ہر ایک رُت کا نظارا ، خُدا کے ہاتھ میں ہے
فلک ، یہ چاند ، ستارے تمام اس کے مطیع
زمیں کی ناؤ ، کنارا ، خُدا کے ہاتھ میں ہے

کوئی بھی انسان جو رب کے عشق میں گرفتار ہو تو یقینا وہ محبوبِ ربِ جہاں ، قاسمِ علم و عرفاں ، راحت ِ قلوبِ عاشقاں ، سرورِ کشوراں ، راہبر انس و جاں ، قرارِ بے قراراں اور غم گسارِ دِل فگاراں حضرت محمد کے عشق سے کیسے دور رہ سکتا ہے ۔ حضور کا تو نام ہی اپنے اندر مدح و ثناءکے آفاق سمیٹے ہوئے ہے اسی اسمِ مبارک نے خالد عنبر بیزار کو بھی مخمور سی قلبی راحت سے نوازا ہے اور درج ذیل فرخندہ بخت اشعار نے اُس کے قلب پر دستک دی ہے ۔

تری ذات کا وسیلہ ہے خُدا تلک رسائی
وہ خُدا کا بھی نہیں ہے جو حضور کا نہیں ہے
عباس ، قاسم ، اصغر ، حسن و حسین تیرے
ترے گھر سا معتبر بھی کوئی سلسلہ نہیں ہے

خالد عنبر بیزار کے کلام میں سلاست ، روانی ، وارفتگی اور برجستگی پائی جاتی ہے وہ غزلیہ آہنگ رکھنے والا شاعر ہے جو محسوس کرتا ہے وہ قلم کی نوک سے آشکار کر دیتا ہے جس کی جمالیاتی چمک قارئین کے وجدانی ذوق کو ایک نئی جِلا بخشی ہے وہ حساس ہے خوشی کے موقع پر بھی فطرت کا دیا ہوا غم اُسے مخمور معنویت سے آشکار کر دیتا ہے جس کی تابانی اشعار میں اس طرح نظر آتی ہے ۔

گھر آتے ہی چھلک پڑے برسات کی طرح
آنسو جو ہم نے تجھ سے چھپائے تھے عید پر
رسماً بھی ہم سے ہاتھ بڑھا کر نہ وہ ملا
ظالم نے یہ ستم بھی تو ڈھائے عید پر

خالد عنبر بیزار اہلِ دِل بھی ہے اور اہلِ نظر بھی ، اسی لیے وہ ہر تیر کھا کر مسکراتا ہے ۔ حساس اتنا کہ باتوں کے نشتر بھی اُسے گھائل کر دیتے ہیں اور وہ بے ساختہ اپنے جذبات کا اظہار یوں کرتا ہے۔

غم کے ماحول سے مانوس ہوا ہوں اتنا
اب خوشی مجھ کو طبیعت پہ گراں لگتی ہے
دُشمن ِ جاں کے نشانے سے یہ جانا میں نے
اُس نے جو کھینجی وہ یاروں کی کماں لگتی ہے

حسن اور محبت نگار خانہ دُنیا کے دو خوبصورت پہلو ہیں جن سے عشق کشید کر کے شاعر غزل لکھتے ہیں ۔ خالد عنبر بیزار نے حسن بھی دیکھا ہے اور عشق بھی کیا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اُسے پھولوں کی سیج نہیں ملی ۔ وہ کانٹوں سے زخمی ہوتا رہا ہے ۔ پھول اُس پر ہنستے رہے ہیں وہ زخمی ہونٹوں سے عشق کی جولانیوں کو محسوس کرتا رہا ہے ۔ ان اشعار میں حسن و عشق کا سنگم کس طرح بیاں کرتا ہے ۔ ذرا ان اشعار میں دیکھیئے !

کب کوئی پورا ہوا عہد ِ وفا دونوں سے
زندگی اور محبت ہے خفا دونوں سے
حسن اور عشق میں تفریق نہ کیجئے صاحب
ہے محبت کی فضاؤں کی بقا دونوں سے

خالد عنبر بیزار حسن مجازی کے گلشن میں جا کر بے تاب بھی ہوتا ہے اور اس کی رعنائی سے جھوم کر کیا لکھتا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے

مل کر خوش ادا ، دفعتاً گر پڑے
آسماں پر زمیں ، ایک انگڑائی سے
پھول ہر شاخ سے گر پڑے جھوم کر
تیری ظالم حسیں ، ایک انگڑائی سے

عشق دلوں میں گداز بھر دیتا ہے ۔ محبوب کا خیالِ جاوداں اضطراب کو بڑھاتا ہے ۔ تو شاعر کے خیالات دھنک رنگ اختیار کرتے ہیں اور یہ دھنک چار سو دکھائی دیتی ہے تو زندگی اس سے روشنی مستعار لیتی ہے بلاغت شعروں میں ایسے جھلملا نے لگتی ہے ۔

ہاں مگر اس کے کرم سے اب لہو روتا ہوں میں
عشق کا نغمہ تو گایا زندگی کے ساز پر
جب دیا گھر میں میسر ہو نہ کوئی دوستو
دِل جلا لیتے ہیں اپنا شام کے آغاز پر

خالد عنبر بیزار دکھوں کی کالی آندھی میں گھِر جاتا ہے اُسے وقت کے ظالم تھپیڑے جینے نہیں دیتے ۔ اپنوں کی بے وفائی کا ایک لمبا سراب ہے اور اُس کی پیاس ہے وہ عالمِ تشنگی میں اس سراب میں بے نام راہی کی طرح سرگرداں ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ کوئی اُسے اپنا مل جائے لیکن سرابِ زیست میں تو صرف تشنگی ہی ملتی ہے ۔ خالد عنبر بیزار کی بھی یہی تشنگی ہی میراث ہے اس تشنگی کے کھنڈر میں ٹوٹی پھوٹی بے وفائی کے محلات ہیں جن میں بھٹک بھٹک کر تنہائی اُس کو ڈسنے لگی ہے ۔ وہ بے اختیار جدتِ خیال کے ساتھ اس لطیف صورت کو کاغذ پر نقش کر دیتا ہے ۔ ملاحظہ کیجئے !

ہمیں بھی مانگ لے کوئی خُدا سے ، ممکن ہے
دکھوں کی چاہیے لیکن سیاہ رات کسے
سوال یہ ہے کہ بیزار دار کی زینت
ستم شعار بنائیں گے میرے ساتھ کسے

خالد عنبر بیزار عشق کا ستم رسیدہ ہے وہ رباب کی بات کرتا ہے ، وہ شراب کی بات کرتا ہے ، وہ میکدے کی بات کرتا ہے لیکن نگاہِ نظر کی جنبش کا منتظر ہے کہ جس سے قسمت کے سکندر بنتے ہیں ۔ ایسے سکندر جنہیں فرقت کے کانٹے نہیں چھبتے بلکہ وصل کے پھول اُن کو مہکا دیتے ہیں ۔ دردِ دروں کے لہو لہو عکس کو وہ رقص میں بدل کر زندگی کا لطف کچھ اس طرح لیتا ہے ۔

رباب چھیڑے تمنا حیات رقص کرے
پلا کچھ ایسی نظر سے کہ رات رقص کرے
بس ایک جنبش ابرو تری جو ہو جائے
یہ میکدہ تری نظروں کے ساتھ رقص کرے

خالد عنبر بیزار بھوک و افلاس کے غم سے نکلنا چاہتا ہے لیکن بھوک و افلاس کے عفریت اُس کو نگلنا چاہتے ہیں ۔ ایسا معاشرہ جہاں فانی دُنیا میں مغلیہ دور کی طرح بڑی بڑی عمارتیں بنگلے اور ایسی ایسی گاڑیاں کہ آنکھیں دیکھ کر خیرہ ہو جاتی ہیں ۔ جائیدادیں بادشاہوں جیسی لیکن حالت بھکاریوں جیسی کیونکہ زر اور زمین رکھنے کے باوجود جو سخی نہیں ہے وہ بالکل بھکاری کی ہی طرح ہے کہ جس کے خزانوں سے بھوکے سیراب نہ ہو سکیں جس کے مال سے مریض دوا نہ لے سکیں وہ بھوکا ہے ننگا ہے جس کا ہمسایہ اُس کی صلہ رحمی سے محروم ہے ۔ اسی کرب اور اسی درد کے لہو لہو عکس احتجاجِ شدید کے خدوخال خالد عنبر بیزار کے ان اشعار میں ملاحظہ فرمائیں ۔

بھوک کی کوئی خودکشی روکے
میں بھی جاؤں نہ جھول شاخوں پر
باغ ویراں نہ کر ، تو رہنے دے
میرے حصّے کے پھول شاخوں پر

محبوب کے حسن و جمال کی کون تعریف نہیں کرتا ۔ محبوب کا چہرہ ، پلکیں ، رخسار ، گلابی ہونٹ ، جھیل جیسی آنکھیں ، سر و قد اور حسین زلفوں کو بہت سے شعرا نے زینت ِ قلم بنایا ہے بس رنگ اپنا اپنا ہے ۔ خالد عنبر بیزار یوں رقم طراز ہے ۔

چاند آئنہ تیرا شب نقاب ہے تیرا
کیا غضب سی قامت ہے کیا شباب ہے تیرا
میں کسی کو کیوں دیکھوں تجھ کو دیکھنے کے بعد
میرے دِل کی حسرت پر انتساب ہے تیرا

دکھوں کا بوجھ اُٹھا کر جو کرب کی دولت ملتی ہے وہ بھی انسان کو دردوں کا نواب بنا دیتی ہے ۔ بھوک پیاس غربت و افلاس برداشت کر کے والدین بچے کو پڑھاتے ہیں تاکہ بچہ معاشرے کا کار آمد رُکن بنے اور دوسروں پر بوجھ نہ بنے لیکن جب علم حاصل کر کے ” ڈگری ہولڈر “ ہونے کے باوجود نوکری نہ ملے تو ایسے خیالات خالد عنبر بیزار یوں نوکِ قلم سے کاغذ پر بکھیرتا ہے ۔

احاطہ تجھ سے ہے ممکن کہاں مرے غم کا
زمین ِ درد کا میں آسمان ٹھہرا ہوں
اُٹھائے ہاتھ میں اب ڈگریاں کدھر جاؤں
گلی گلی میں تو عبرت نشان ٹھہرا ہوں

خالد عنبر بیزار حدیقہ فکر میں رحمانی عطاؤں کی مہکار کے آثار سجا کر اظہار کے گلدانوں میں مضامین نو بہ نو کو کس طرح سجاتا ہے ۔ چشمہ فکر و نظر کے شفاف پانی میں ڈوب کر اُس نے عشقِ رسول میں یہ شعر اس طرح رقم کیا ہے ۔

گزرا نہ ہو جو عشقِ محمد میں دوستو !
ایسا مری حیات میں لمحہ کوئی نہیں
بیزار ان ستاروں کے شہر میں
چہرے کھلی کتاب ہیں پڑھتا کوئی نہیں

یادِ یار سے دِل کو سجائے ہوئے خالد عنبر بیزار ہر غم سہتا ہے ، ہر طوفان سے ٹکراتا ہے ۔ اُس کی زندگی میں سراب ہے جس میں پیاس رگِ جاں کو بھی خشک کر دیتی ہے ۔ حیات اُس کیلئے غم کا دریا ہے ۔ صحرا میں دکھوں کی چاندنی اُس کے دکھ میں اضافہ کر دیتی ہے اور وہ کہہ اُٹھتا ہے ۔

طوفانِ گردوبار ہے صحرا کی چاندنی
میں اور کسی کی یاد ہے صحرا کی چاندنی
بعد از خدا ازل سے ہے جو مجھ پہ مہربان
بیزار اُن کی یاد ہے صحرا کی چاندنی

ہمارے معاشرے میں سٹیٹس کے بُت ہیں جن کو پوجا جا رہا ہے ۔ کسی بھی محکمے میں چلے جائیں یا کسی بھی محفل میں چلے جائیں ہر طرف سٹیٹس کو پوجا جاتا ہے ۔ میں نے تو اس بُت پرستی میں اُردو اَدب کے بڑے بڑے ناموں کو پوجا کرتے دیکھا ہے ۔ اگر ایک محفل میں کوئی کلام ایک مزدور سُنائے تو اُس کو داد نہیں ملتی لیکن اگر وہی شعر کوئی پروفیسر یا وکیل سُنائے تو واہ واہ کی فلک شگاف داد سُننے کو ملتی ہے ۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اُس میں سٹیٹس کے بُت کو گرانے کیلئے کوئی محمود غزنوی آئے تو یہ بُت ٹوٹ کر منہ کے بل گریں گے اور جتنا جھوٹ ہمارے وطن کی سیاست میں چل رہا ہے شاید ہی دُنیا کے کسی اور ملک میں ہو ۔ ہمارے ملک کی سیاسی کمپین ہی جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے ۔ ہر بار جھوٹ سُن کر ہم پھر جھوٹ کو ہی ووٹ دیتے ہیں خالد عنبر بیزار سٹیٹس اور جھوٹ دونوں سے نالاں ہے اور اس کا یوں اظہار کرتا ہے ۔

کھدّر کی پوشاک کی کوئی قدر نہیں
ریشم کے ہر سوٹ کی تیرے شہر میں ہے
دیکھ وہی بیزار ہے اُونچے منصب پر
عادت جس کو جھوٹ کی تیرے شہر میں ہے

محبوب کے ملنے سے زندگی کا سرور حاصل ہوتا ہے یہی سرور خالد عنبر بیزار بھی وصل کے لمحات سے کشید کرتا ہے ۔

ہر سمت تھا اندھیرا جب تم نہیں ملے تھے
دیکھا نہ تھا سویرا جب تم نہیں ملے تھے
تنہائیاں تھیں ، ہم تھے اور غم کے سلسلے تھے
جیون تھا ایک صحرا جب تم نہیں ملے تھے

خالد عنبر بیزار کی کتاب ” چاندنی سے دیا جلاتے ہیں “ کو میں جوں جوں پڑھ رہا ہوں خوبصورت سے خوبصورت شعر عقل و فہم پہ دستک دے رہا ہے ۔ میرے لیے اشعار کا چناؤ مشکل ہو گیا ہے کیونکہ یہ خالد عنبر بیزار کے دِل سے نکلی ہوئی باتیں ہیں ۔ ان کو جتنا کھولیں گے صدف سے گوہر نکلتے جائیں گے ۔ تبصرے کے آخر پہ میں چند اشعار آپ دوستوں کی نذر کرتا ہوں ۔

ہم تم میں کوئی بات تو اِک جیسی ملی ہے
جھیلے ہیں زمانے میں الم ایک طرح کے
شکوہ یہ نہیں تو نے مجھے چھوڑ دیا ہے
ہر شخص کے ہیں مجھ پہ کرم ایک طرح کے

اُن کی چوکھٹ پہ سجدوں کی اِک بھیڑ ہے
بُت کدے سے مجھے سر اُٹھانے کا غم
چوٹ پر چوٹ کھائی تو ایسا لگا
چوٹ بھی دے گئی مسکرانے کا غم

خالد عنبر بیزار کی کتاب کی آخری غزل کا شعر ملا حظہ فرمائیں ۔

مجھے تو فاقہ کشی نے نہ تیرا ہونے دیا
تجھے میں کیسے بتاتا ، یہ میرا وعدہ تھا
کسی نے روٹھ کے نظریں ہی پھیر لیں مجھ سے
میں جان دے کے مناتا ، یہ میرا وعدہ تھا

آخر پہ میری دُعا ہے کہ رَبِّ دوجہاں خالد عنبر بیزار کو صحت کاملہ اور رزقِ کثیر سے نوازے کیونکہ وہ اُردو اَدب کا ایک درخشاں ستارا ہے ۔ وہ جگمگائے گا تو روشنی ہو گی ۔ تیرگی کا دور چھٹے گا میں اکادمی ادبیات سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ اٹک کے ” ساغر صدیقی “ کو بچا لیجئے کیونکہ اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو حشر تک قلم بھی روئے گا اور کاغذ بھی کیونکہ کدورتوں سے بھرے جہاں میں کوئی تو پیار کرنے کی بات کرے ، کوئی تو سرابِ زندگی میں مثل آبِ زم زم ہو ، کوئی تو تیرگی کے دامن میں سحر سے اُجالا بھر دے ، کوئی تو الفاظ کے گوہر لٹائے ، کوئی تو عشق و مستی کی بات کرے ۔ کوئی تو دِل کے مندر سے بُت گرائے ، کوئی تو چاندنی سے دیا جلائے کیونکہ خالد عنبر بیزار تو چاندنی سے ہی دیا جلاتا ہے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں