The news is by your side.

اقوام متحدہ میں امن کی لے سناتا اسلام کا سفیر

تحریر: زید حارث


یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے تجھ کو اسالیب ایمانی

وہ دنیا کی رنگینیوں میں شباب گزارنے والا، وہ کرکٹ کے میدان میں زندگی گزارنے والا، وہ کھیل کے میدان کا چیمپئن، وہ دنیا کی رنگا رنگ تعیشات میں زندگی گزارنے والا۔۔۔۔۔ آج ایک ایسے ہال میں کھڑا تھا جہاں ہر کافر امن کا ٹھیکیدار اور ہر داڑھی والا دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔ جہاں مسلمانوں پہ ہونے والے ظلم کی اہمیت جانوروں پہ ظلم سے بھی گئی گزری تھی۔

وہ ایک ایسے اجلاس میں کھڑا تھا جہاں دنیا میں طے پانے والے معاہدے اور معاملات حتمی شکل اختیار کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسی کانفرنس میں شریک تھا جہاں بے حیائی کا نام آزادیٔ انسانیت اور حجاب کا نام دقیانوسیت تھا۔ وہ ایسی مجلس میں کھڑا تھا جہاں کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کی تیاری کی جارہی تھی۔ وہ ایک ایسے اجتماع سے خطاب کر رہا تھا جہاں برما کے مسلمانوں پہ ہونے والی بربریت کا ذکر بھی باعث استہزاء سمجھا جاتا تھا. وہ دیکھنے میں ایک غیر متدین شخص تھا۔

اس کے حلیے پہ کسی مسلک کی چھاپ نہیں تھی اور اس کی شلوار بھی ٹخنوں سے اونچی نہیں تھی۔ اس کے ماضی میں بھی کسی مدرسے کی نسبت نہیں تھی اور وہ شاید تہجد گزار بھی نہیں تھا، نہ ہی وہ کسی سلسلے کی اعلانیہ بیعت بھی کئے ہوئے نہیں ہے۔

اس شخص کی زندگی خانقاہوں میں نہیں گزری تھی بلکہ اس کو دین کے ٹھیکیداروں نے ختم ِنبوت کا غدار قرار دیا تھا۔ وہ تو فتوے کی مشینوں کے ساتھ یہودیوں کا ایجنٹ قرار پایا تھا۔ اسے تو کشمیر کا سوداگر بنا دیا گیا تھا، اس کو تو اسرائیلی ایجنڈے کی تکمیل کا آخری مہرہ قرار دیا گیا تھا، وہ تو مدارس کا دشمن قرار پایا تھا لیکن اپنی باری پر اس نے دنیا کو اسلام کی وہ تعریف سمجھا دی جو قرآن نے کی ہے۔

وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنہ فانتهوا

اس نے عالمی لیڈرز کو مخاطب کر کے اسلام کے حکم حجاب کا درس دے کر اپنی ایمانی غیرت کا ثبوت دیا۔ اس نے اسلام فوبیا کا ذکر کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ جنرل اسمبلی میں تقریر کرنے والا صرف پاکستان کا نہیں بلکہ عالم اسلام کا سفیر ہے۔

اس نے برما کے مسلمانوں پہ ہونے والی بربریت پہ دنیا کو سوالات کے بحر میں لا کر چھوڑ دیا کہ آخر یہ سب مسلمانوں کے ساتھ ہی کیوں؟ اس نے ہندو ازم کی ذہنیت بیان کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہماری خاموشی ہماری کمزوری کی علامت نہیں بلکہ ہماری طرف سے سلامتی و امن کا پیغام ہے۔

اور صرف یہی نہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس نے پوری دنیا کے خاموش تماشائیو ں کو بھی یہ پیغام دے دیا کہ اقوام ِ عالم ذرا اپنی اداؤں پر غورکریں ، کہیں ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو قیامت ہو گی۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں