The news is by your side.

کیا پاکستانی نوجوان تاریخ‌ سے ناواقف، فہم و تدبر سے محروم ہے؟

تحریر: ملک شفقت اللہ

کچھ واقعات اور سانحے ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا حصّہ بن جاتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے پر ان کے گہرے اور مثبت یا منفی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو دیکھیں گے کہ انسان کا کسی سمت اٹھایا گیا کوئی بھی قدم اور اس کا ہر عمل اس کا پیچھا کرتا ہے۔ یعنی وہ جو کچھ کرتا ہے اس کا اچھا یا برا نتیجہ بھی اس کے سامنے آتا ہے۔ ایک عام شکوہ ہے کہ پہلے ایسا بدترین وقت ہم نے نہیں دیکھا، یا حالات ایسے نہیں تھے جتنے اب خراب ہو چکے ہیں۔ الغرض ہر آنے والے دن کو لوگ بدتر اور برا ہی کہتے ہیں۔

زمانہ بدل گیا ہے۔ مخصوص نظریات کا پرچار اور فکر کے اظہار کی آزادی کا استعمال کچھ زیادہ ہی کیا جارہا ہے۔ یہ کہیے تو کیا غلط ہو گا کہ بے دریغ، بے دھڑک اور سوچے سمجھے بغیر شکوے، شکایات کا سلسلہ جاری ہے۔ نوجوان نسل کی بات کریں تو وہ اپنی قوتِ بازو پر بھروسا اور اپنی عقل سے تدبیر کرنے کے بجائے تقدیر اور قسمت سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ قدرت نے ان کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔

یاد رکھیے فطرت بگاڑ اور تاریخ غلطی کرنے والے کو معاف نہیں کرتی۔

کہتے ہیں کہ کسی تہذیب پر دوسری تہذیب اور ثقافت کے غلبہ پانے میں چار دہائیاں لگ ہی جاتی ہیں۔ ہم اگر اپنی قومیت کے فلسفے کو یاد کریں تو ہمارا سَر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہمارے قومی نظریے پر وار کیے جارہے ہیں، ہماری تہذیب، ثقافت اور تمدن خطرے میں ہے۔ قومیت کے فلسفے کا مرکزی نکتہ بدلتا جارہا ہے اور لبرل ازم، سیکولر ازم، کمیونسٹ فکر نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ ہماری مفلوج سوچ ایک سراب کو سب کچھ مان کر اس کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ اس کشمکش میں آج جو معاشرہ ہمارے سامنے ہے وہ ہر اعتبار سے پست اور ناقص ہے۔ گالی و گولی کی سیاست، دولت و شر کی معاشرت اور انسانیت عہدے اور اختیار تک رہ گئی ہے۔

ہم بھولتے جارہے ہیں کہ اپنے گھر کا دفاع کس طرح کرنا چاہیے، ہمارے معاشرے کی تکریم، حرمت کیا ہے اور یہ ہم سے کن اقدار کا تقاضا کرتا ہے۔ اسے کس سوچ اور نظریے کے تحت زندہ رکھا جاسکتا ہے۔ اچھائی برائی کی تمیز ہم کھو چکے، محنت کی عظمت سے ہم واقف نہیں رہے، دولت اور آسائش کو معیارِ زندگی سمجھ رکھا ہے اور اس کے لیے جائز اور ناجائز کوئی بھی طریقہ اپنانے سے نہیں بچتے۔ اس معاشرے میں ایمان دار صرف وہی ہے جس کا کوئی داؤ نہیں لگ رہا۔

مادّہ پرستی اور انفرادی سوچ نے عدم توازن اور خود غرضی کو جنم دیا ہے اور اس سے بڑھ کر کچھ مقدم نہیں رہا، چاہے وہ جذبۂ ایمانی ہو یا حب الوطنی۔ تاریخ ایسی کئی مثالیں پیش کرتی ہے کہ جب اقوام ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر مقدم رکھتی ہیں تو تباہی اور بربادی ان کا مقدر بنتی ہے۔

ہمارے نوجوان ہی کل اس ملک باگ ڈور سنبھالیں گے۔ ان میں سے ہی کوئی سیاست کے میدان میں ہو گا تو کوئی ریاستی عہدے پر، انہی میں سے سائنس داں، تاجر، سماجی کارکن، منصف، صحافی اور مدبر و قائد بنے گا۔ مگر افسوس کہ یہی طبقہ ایک ایسے راستے پر چل نکلا ہے جس پر اسے بہکا کر ہماری نظریاتی اساس، اقدار حتی کہ آزادی کو بھی خطرے سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کے خیالات دیکھیں تو اس بات کا ادراک ہو جائے گا کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں۔

مفاد پرست اور ملک دشمن عناصر نوجوان نسل کو ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف اکسا رہے ہیں۔ انھیں ملکی سالمیت اور بقا کے ضامن عسکری اداروں کے خلاف کیا جارہا ہے اور تاریخ سے ناواقف اور جذباتی نوجوانوں کا برین واش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اگر ہم نے اپنی نوجوان نسل کو اس راستے سے نہ ہٹایا اور ان کی راہ نمائی اور فکری تربیت کے لیے آگے نہ بڑھے تو بڑا نقصان ہو گا۔ خطے میں عالمی سیاست اور عسکری سطح پر تبدیلیوں پر نظر رکھنے اور اس کے مطابق حکمتِ عملی ترتیب دینے کے ساتھ ہمیں مسلسل بدمعاشی کرنے والے بھارت کا بھی مقابلہ کرنا ہے۔ خطے اور عالمی سطح پر مختلف خدشات اور خطرات کے ساتھ ہمیں اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو بھی بے نقاب کرنا ہو گا اور نوجوانوں پر توجہ دینا ہو گی۔

اظہار کی آزادی کا فائدہ اٹھانے والے اور حق بات کہنے کے لیے بے تاب رہنے والے پہلے تاریخ کا مطالعہ کریں اور جانیں کہ یہ ملک کس نظریے کے تحت بنا تھا اور اس کے لیے ہمارے بزرگوں نے کیوں قربانیاں دی تھیں۔ کیا تعلیم یافتہ اور سمجھ دار ہونے کے باوجود کوئی بھی ہمیں کسی سمت دھکیل دے تو ہم چل پڑیں گے؟ اگر ایسا ہے تو یہ مان لیں کہ ہم فقط پڑھے لکھے ہیں، باشعور اور ذمے دار نہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں