تحریر: ملک شفقت اللہ
پاکستان کے موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو یہی کہا جائے گا کہ ہم سنگین مسائل اور شدید بحران کا سامنا کر رہے ہیں اور اس سے نکلنے کا راستہ آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے تمام سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان مشاورت کے بعد مؤثر حکمتِ عملی اور جامع پالیسی مرتب کرکے اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت جہاں ملک کو داخلی چیلنجوں کا سامنا ہے وہیں خارجہ سطح پر بھی سنگین معاملات اور مسائل ہمارے سامنے ہیں۔ ایشیا میں برتری اور من مانی کا خواب دیکھنے والے ممالک ہمیشہ اس حوالے سے سر گرم رہے ہیں اور نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا بھر کا امن داؤ پر لگا دیا ہے۔ دوسری جانب اگر اسے مفادات کی جنگ کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہوگا۔ لیکن یہاں یہ اصول بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر سب اپنے ملک اور قوم کے مفاد کی جنگ لڑ رہے ہیں تو پھر دوسروں کے مفاد کا خیال بھی رکھا جانا چاہیے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔
ادھر ہم جب بھی عالمی سازشوں کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے ملک اور قوم کے مفاد، اپنی بقا اور سالمیت کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو ہمیں غلط کہہ کر مسترد کردیا جاتا ہے۔ ایک شیطان ریاست کے شہری نے کہا کہ ہمارے ملک میں جھوٹ نہ صرف ایک اخلاقی حیثیت رکھتا ہے، بلکہ ریاست کا ستون بن چکا ہے۔ ان کا اشارہ غالباً امریکی ایجنسی سی آئی اے کی جانب ہے جو پراکسی وار اور جھوٹے پراپیگنڈوں سے نہ صرف امریکی عوام کو بیوقوف بنائے ہوئے ہے بلکہ دنیا بھر میں حکومت کرنا چاہتی ہے۔
حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ نے پینٹا گون کی دو ہزار صفحات پر مشتمل ایک خفیہ رپورٹ شایع کی ہے جس میں امریکا کی طویل ترین جنگ کی ناکام حکمتِ عملی کے متعلق تفصیلات دنیا کے سامنے آئی ہیں۔ اس رپورٹ کا اختتام کچھ اس طرح ہوا ہے کہ افغانستان جنگ سے متعلق امریکی مسلسل جھوٹ بولتے رہے ہیں۔ اسی بات کا اظہار کچھ دبے الفاظ جنرل ڈگلس لیوٹ نے کیا تھا جو افغانستان میں بش اور اوباما کے دور میں افواج کا سربراہ رہا ہے۔ اس کا کہنا تھاکہ ہم جو کچھ کر رہے تھے، اس کا ہمیں ذرہ برابر بھی اندازہ نہیں تھا۔ امریکا نے ایک دور افتادہ جنوبی ایشیائی ملک میں تکبر اور وحشت و بربریت پر مبنی حکمتِ علمی اپنائی۔ افغانستان پر حملہ بظاہر امریکا کے خلاف نائن الیون حملوں کا انتقام تھا جب کہ وقت نے ثابت کیا کہ افغانستان میں اس حملے سے متعلق کچھ نہیں ملا اور وہاں اس حملے کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔
طالبان اس وقت ایسے مسلح قبائلی جنگجو تھے جو ڈاکوؤ ں اور امریکی نواز افغان خفیہ ادارے کے خلاف لڑ رہے تھے، جس کا انتظام کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھ میں تھا۔ طالبان کے سرپرست مجاہدین کی پذیرائی سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن نے حریت پسند کہہ کر کی تھی۔ 2003 میں امریکیوں نے اپنی حکمت عملی یکسر تبدیل کر لی اور افغانستان کے کمیونسٹ حلقے کی حمایت شروع کر دی اور ایک مفاد پرستی پر مبنی معاہدہ کیا۔ لیکن جب طالبان نے کسی وجہ سے امریکی پیش کش کو مسترد کیا تو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔
افغانستان کا کمیونسٹ دور اور طالبان کی ۤآمد کے بعد پھر اس ملک پر جنگ مسلط کرنا ایک طویل قصہ ہے اور اس کے پیچھے امریکا کی بددیانتی اور دنیا بھر میں حکم رانی کی خواہش ہے جس نے اس خطے کو ۤآگ میں دھکیل دیا ہے۔ داعش امریکا کی اختراع اور اسی کے مقاصد اور مفادات کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔
موجودہ حالات میں جب امریکا، ایران تنازع کھڑا ہوا ہے تو پاکستان نے جس فہم و تدبر کا مظاہرہ کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی، لیکن امریکا کو ایران کے خلاف اڈے نہ دینے کے بعد افغانی سرحد سے داعش کے حملوں کا بھی خطرہ ہے جس کے لیے ہمیں سوچنا ہو گا۔ پاکستان چالیس برس سے افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے اور پاکستان کے سرحدی علاقوں اور اندرون ملک بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کے تانے بانے اسی ملک سے جاملتے ہیں۔ ایک طرف تو مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل تیز کیا جانا چاہیے اور دوسری جانب امریکا اور ایران تنازع کے بعد اگر کڑے فیصلے کر لیے ہیں تو ان پر قائم رہتے ہوئے ہمیں اپنی سرحدوں پر بھی زیادہ توجہ دینا ہو گی۔