The news is by your side.

کرونا وائرس اور ہمارا رویّہ

تحریر: اُمِّ فاطمہ
دنیا کو مختلف ادوار میں معاشرتی اور معاشی چیلنجز کا سامنا رہا ہے اور انسانی آبادی صحّت و علاج کے حوالے سے مسائل اور مشکلات کا شکار رہی ہے۔

جدید دور میں جہاں انسانوں نے مختلف امراض اور جسمانی تکالیف کا علاج اور ان سے نجات کا طریقہ دریافت کیا، وہیں قسم قسم کی نئی بیماریاں بھی سامنے آئی ہیں۔ ٹی بی کا علاج دریافت ہوا تو کینسر سے اموات ہونے لگیں، اس کے علاج میں کسی حد تک کام یابی ملی تو ایڈز جیسا مرض سامنے آگیا جو اب تک لاعلاج ہے اور اب دنیا کو کرونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا میں کاروبارِ زندگی مفلوج ہو رہ گیا ہے۔ اس وبائی مرض نے جہاں لاکھوں انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا ہے، وہیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی مسائل نے بھی زندگی مشکل بنا دی ہے۔

دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وبا پھیلی اور انسان گویا خشک پتّوں کے مانند اڑنے لگے، دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ خود معالج بھی مریضوں کے علاج کے دوران اس وبائی مرض سے متاثر ہوئے اور موت کے منہ میں چلے گئے۔

پاکستان میں لوگ پہلی بار لاک ڈاؤن سے اسی وبا کے سبب متعارف ہوئے۔ جو شخص جس مقام پر تھا اسے وہیں رہنے کی ہدایت کر دی گئی۔ دنیا بھر کے سائنس دان سر جوڑ کر بیٹھ گئے، لیکن نتیجہ یہ رہا کہ ویکسین لگوانے کے باوجود یہ وائرس لوگوں کو متاثر کررہا ہے۔

بدقسمتی سے ہم جس معاشرے کا حصّہ ہیں، وہاں تعلیم کا تناسب بہت کم ہے اور زیادہ تر لوگ آج بھی حفظانِ‌ صحّت کے اصولوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور امراض سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ موجودہ صورتِ حال میں ہماری یہی عادت مزید نقصان دہ اور اس وبا کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے جب کہ تعلیم اور شعور نہ ہونے کے سبب بعض انتہائی نامعقول اور بھونڈے رویّے بھی سامنے آئے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں وبا سے متاثرہ افراد اور ان اہلِ خانہ سے ہم دردی، مدد اور تعاون کی جہاں کئی خوب صورت مثالیں قائم ہوئیں وہیں بعض تکلیف دہ واقعات بھی پیش آئے۔ یہ بھی درست ہے کہ کسی مریض کو صحّت یابی کے بعد دوسرے لوگوں نے اچھوت سے کم خیال نہ کیا۔ ایسے واقعات بھی پیش آئے کہ وبائی مرض سے مرنے والے کی تدفین کے حوالے سے اس کے گھر والوں سے قریبی لوگوں اور محلّہ داروں نے بعض نامناسب اور تکلیف دہ باتیں‌ کیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے اپنے احباب اور اہلِ محلّہ کو موت کی اطلاع دینے اور اس کی وجہ بیان کرنے میں جھجھک محسوس کی۔ اگرچہ اس قسم کے رویّے کا اظہار کھل کر اور بہت زیادہ نہیں کیا گیا، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ لوگ بے حسّ ہوچکے ہیں۔

اس کے ساتھ ہمارے چھوٹے علاقوں اور دیہات کے کم تعلیم یافتہ لوگ ہی نہیں بلکہ شہروں میں بسنے والے بھی ویکسین کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ ہماری قوم جو آج تک پولیو ویکسین کے بارے میں من گھڑت کہانیوں اور مفرضوں سے باہر نہیں‌ نکل سکی اس وقت ایک اور بیماری سے بغیر ویکسین لگوائے لڑنے کو تیّار ہے جس نے امریکا، برطانیہ، کینیڈا جیسے ممالک جہاں علاج معالجے کا جدید نظام اور بہترین سہولیات موجود ہیں، تک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ قوم اس وبا کا بھی دیسی علاج ڈھونڈنے اور اسے جھاڑ پھونک اور ٹوٹکوں سے بھگانا چاہتی ہے۔

پاکستان کے عوام کو چاہیے کہ اس حوالے سے حکومتی اعلانات اور پیغامات کو سمجھیں اور تعلیم یافتہ و باشعور لوگ انھیں اس بارے میں آگاہی دیں جو ان پڑھ یا کم فہم ہیں۔

یاد رکھیے، یہ ایک بیماری ہے، جس کا علاج ممکن ہے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ اس وبائی مرض کے باعث کئی اموات بھی واقع ہوچکی ہیں اور ضروری ہے کہ ہم تمام احتیاطی تدابیر اپنائیں اور اپنی ہی نہیں دوسروں کی زندگی بھی محفوظ بنائیں‌۔ ویکسین لگوائیے، ماسک استعمال کیجیے اور غیرضروری میل جول ترک کرتے ہوئے آپس میں چھے فٹ کا فاصلہ رکھیے۔ طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھوں کو اچھی طرح اور بار بار دھونے کے ساتھ اچھی اور صاف ستھری غذا اور صحّت مند سرگرمیاں ہمیں وبائی مرض سے بچانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ ہمیں چاہیے کہ ان ہدایات پر عمل کریں اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کریں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں