آج معمولی پڑھا لکھا اور اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان بھی اس بات کو بہت اہمیت دیتا نظر آتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور اسمارٹ مشینوں کے ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اب محض تفریح اور معلومات کے حصول کا نہیں بلکہ ان کی مالی ضروریات پوری کرسکتے ہیں، اس لیے وہ ان کا استعمال سیکھ کر مالی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں جو یقیناً اچھی بات ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس معاملے میں بھی ہم عدم توازن اور بدنظمی و انتشار کا شکار ہیں۔
یہی نوعمر لڑکے اور لڑکیاں جو ابھی اسکول میں زیرِ تعلیم ہیں جدید اور ڈیجیٹل ذرایع تفریح و آمدن کو تو اپنا رہے ہیں، لیکن اپنی تربیت اور کردار سازی کی اہمیت اور افادیت سے یکسر لاعلم اور بے نیاز ہیں۔
یہ نوجوان اپنی عمر کے ابتدائی برسوں ہی میں خود کو عقل مند اور زیادہ سمجھ دار تصوّر کرنے لگے ہیں جب کہ انھیں ابھی اپنی تربیت اور کردار سازی کے عمل میں اپنے سرپرستوں یعنی والدین، اساتذہ اور بزرگوں سے تعاون کرنا چاہیے اور ان کی باتوں اور ہدایات کو اہمیت دینا چاہیے۔ تربیت اور راہ نمائی کا یہ عمل نوجوانوں کی شخصیت کی تعمیر میں ازحد اہم ہے اور اگر وہ اسے نظر انداز کریں گے تو یہ جان لیں کہ ان کی آئندہ زندگی اسمارٹ مشینوں کے ایک غلام جیسی ہوگی جو اچّھے بُرے میں تمیز کرنے سے قاصر ہو گا۔
بدقسمتی سے ملک کے مختلف شہروں میں مسلسل ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جو ہماری اخلاقی قدروں کی نفی اور ہمارے لیے باعثِ شرم ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں خاتون ٹک ٹاکر کے ساتھ مجمع نے جو سلوک کیا، اس کی ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد ہم ایک بار پھر انہی روایتی مباحث میں گم ہوگئے اور یہ ثابت کرنے پر زور لگا دیا کہ قصور کس کا ہے۔
میں سمجھتی ہوں کہ قصور وار وہ سب لوگ ہیں جو قوم کے معماروں کو ڈگریاں حاصل کرتا اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتا دیکھ کر خوش ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لڑکے لڑکیاں تیزی سے نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہورہے ہیں اور چیلنجز سے نمٹنا سیکھ رہے ہیں، لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ انھیں تربیت اور راہ نمائی کی بھی ضرورت ہے۔
نسلِ نو کی تربیت کی اہمیت کے پیشِ نظر ہر دور میں اس کا اہتمام کیا گیا ہے، لیکن آج اس کی ضرورت اور اہمیت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اگر ہم نے اس طرف فوری توجّہ نہ دی گھروں سے لے کر سماج تک بربادی اور تباہی دیکھیں گے۔
ایک وقت تھا جب گھروں میں والدین کے علاوہ درس گاہوں میں اساتذہ اور محلّوں میں جانے انجانے بزرگ بھی موقع ملتا تو کوئی اچھی بات سکھانے اور سمجھانے کو فرض سمجھتے تھے اور بالخصوص گھروں اور اسکولوں میں نصاب سے ہٹ کر بھی بچوں کو سبق آموز واقعات، کہانیاں سنائی جاتی تھیں اور نصیحت و ہدایت کو اہم خیال کیا جاتا تھا، لیکن اب اس کا فقدان ہے۔ والدین، اساتذہ اور بزرگوں کو شکایت ہے کہ آج کا نوجوان موبائل فون کی اسکرین میں کچھ اس طرح گم ہے کہ اس کی توجّہ حاصل کرنا ان کے لیے مشکل تر ہوگیا ہے۔
نئی نسل سے بزرگوں کی یہ ناراضی یا شکایت تو بجا ہے، لیکن مایوس ہوکر انھیں یوں بھٹکتا ہوا چھوڑ دینا عقل مندی نہیں۔ اس حوالے سے دانش وروں، ماہرینِ تعلیم اور سینئرز اساتذہ کو کوئی راستہ تلاش کرنا ہو گا اور باقاعدہ حکمتِ عملی کے تحت تعلیم کے ساتھ ساتھ بچّوں کی تربیت اور نوجوانوں کی کردار سازی کے لیے کام کرنا ہو گا۔
لاہور میں ٹک ٹاکر کے ساتھ بدسلوکی یا دست درازی کا واقعہ ہو یا ایسے دیگر افسوس ناک واقعات ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ اخلاقی تربیت کا فقدان بھی ہے۔ خواتین کی عزّت اور احترام کے حوالے سے نوجوان لڑکوں کو تعلیم دینے اور ان میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، اس سوچ اور فکر کو تقویت دینا ہوگی جو عورتوں کے وقار اور آبرو کی ضامن ثابت ہو۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سرکاری اسکولوں کی حالت ہم سدھار نہیں سکے، غریب کے لیے بچّوں کو تعلیم دلانا ایک خواب بنتا جارہا ہے جس کے باعث خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہورہا اور دوسری طرف ہم اخلاقی طور پر گراوٹ کا شکار ہورہے ہیں اور نوجوانوں میں تربیتی عمل کا فقدان ہے۔ اس کے سبب معاشرے کی اخلاقی بنیادیں کم زور پڑ رہی ہیں اور ہم اس بات کو اہمیت نہیں دے رہے کہ ایک اچھا انسان کیا ہوتا ہے اور کیسے معاشرے کا مفید شہری بنتا ہے۔
نوجوانوں کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے جہاں روزگار کا حصول اور آمدن کا طریقہ سکھانا ہوگا، وہیں درس گاہوں میں اس بات کا اہتمام کرنا ہو گاکہ آج کا نوجوان اچھے اور بُرے میں تمیز کرنا سیکھے اور باہر نکلے تو اپنے ہر عمل سے خود کو اچھا اور مہذب شہری ثابت کرسکے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی باصلاحیت اور محنتی ہیں اور ان میں عملی میدان میں کچھ کر دکھانے کی خواہش اور جذبہ بہت زیادہ ہے، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ عمر کے مختلف مدارج میں تعلیم کے ساتھ ساتھ انھیں زیادہ ذمہ دار اور مفید شہری بنانے کے لیے بھی ہمیں غوروفکر کرنا ہوگا۔
یہی وقت ہے کہ حکومت اور ادارے معاشرے کے باشعور طبقات کو ساتھ ملا کر نوجوان طبقے کا ہاتھ تھامیں اور ان کی تربیت اور کردار سازی کا عمل شروع کیا جائے جس میں مدارس اور تمام تعلیمی اداروں کا رول اہم ہو گا۔ دوسری طرف بزرگوں کی تعلیمات، سیرت و کردار پر مبنی مواد خواہ وہ کتاب کی صورت میں ہو یا ڈیجیٹل شکل میں نوجوانوں کے لیے پڑھنا، سننا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔