The news is by your side.

کلائمٹ چینج، کرونا کی وبا اور گلاب کے پھول

سندھی اور اردو زبان کے مشہور شاعر شیخ ایاز نے اپنی وائی میں لکھا ہے، جب ڈالیوں پر سرخ گلاب کھلیں گے، ہم تب ملیں گے۔ رواں سال وبا کے بیچ جب سرخ گلاب کھلے، تو عاشقوں کو محبوب سے ملن کا موقع تو مل گیا، لیکن فکر معاش نے انہیں کھل کر خوش ہونے نہ دیا۔

میلوں تک پھیلا کھیت اور اس پر جا بجا لگے سرخ گلاب، دیکھنے میں تو سحر انگیز منظر ہے، لیکن اپنے نگہبانوں کے لیے ایک پریشان کن نظارہ، جو جانتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وبا نے اس سال ان پھولوں کے نصیب میں خاک میں مل جانا لکھا ہے۔

کرونا وائرس کی وبا نے جہاں پوری دنیا کو معطل کیا اور عالمی معیشت کو تباہ و برباد کردیا، وہیں سرخ گلابوں کا کاروبار بھی ایسا ٹھپ ہوا کہ اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کے چولہے بھی سرد ہوگئے۔


گلشن کا مہکتا ہوا کاروبار

صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد، مٹیاری اور ٹنڈو الہٰ یار گلاب کی کاشت کے مرکز ہیں۔ یہاں لگے گلاب کے کھیت نہ صرف مقامی ضروریات پوری کرتے ہیں بلکہ انہیں باہر بھی بھیجا جاتا ہے، بلکہ اگر کہا جائے کہ مقامی استعمال سے زیادہ فائدہ مند بیرون ملک ایکسپورٹ ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے نہ صرف ایکسپورٹ بلکہ مقامی کھپت بھی بے حد متاثر ہوئی اور گلاب کے کاروبار سے جڑے لوگوں کی زندگیوں میں معاشی بدحالی در آئی۔

کبیر حسین منگوانو مٹیاری میں 40 ایکڑ زمین کے مالک ہیں جس پر گلاب کاشت کیا جاتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران گلاب کی مقامی کھپت میں 50 فیصد کمی آئی جبکہ بیرون ملک ایکسپورٹ مکمل طور پر رک گئی، اور گلاب کی پتیوں سے بھرے بورے یونہی گوداموں میں پڑے رہ گئے۔

کبیر حسین کے مطابق گلاب کا موسم سارا سال رہتا ہے لیکن کچھ ماہ ایسے ہیں جنہیں اس کا سیزن کہا جاتا ہے، یہ سیزن پیداوار کا بھی ہوتا ہے اور استعمال کا بھی۔ سیزن کے دوران ان کے 40 ایکڑ کے فارم سے روزانہ 2 سے ڈھائی ہزار کلو گلاب پیدا ہوتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ یہ تعداد گھٹ کر 5 سو سے 6 سو کلو یومیہ چلی جاتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ گلابوں کا زیادہ استعمال درگاہوں میں کیا جاتا ہے، کرونا کی وبا سے پہلے کراچی کی صرف ایک عبداللہ شاہ غازی کی درگاہ پر یومیہ 15 سو سے 2 ہزار کلو پھولوں کی پتیاں فروخت کی جاتی تھیں، درگاہوں پر پھولوں کی کئی مختلف دکانیں ہوتی ہیں اور یہ ان کی روزانہ مجموعی کھپت تھی، لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے اس کھپت میں 50 فیصد کمی ہوئی۔ کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن میں سال کا زیادہ تر حصہ درگاہیں اور مزارات ویسے بھی بند رہے، اور جب کھلے تب بھی لوگوں کی آمد و رفت پہلے جیسی نہیں تھی۔

گلاب کا دوسرا استعمال دواؤں اور کاسمیٹکس میں کیا جاتا ہے جبکہ گلقند بھی بنایا جاتا ہے، اور پھر اس کا سب سے بڑا حصہ برآمد کیا جاتا ہے۔ برآمد کیا جانے والے حصہ گلاب کی خشک پتیاں ہوتی ہیں جنہیں سکھایا جاتا ہے اور پھر ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ یہ خشک پتیاں یورپ اور عرب ممالک میں برآمد کی جاتی ہیں اور وہاں انہیں دواؤں اور کاسمیٹکس کے علاوہ چائے کی پتی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

گلاب کی کاشت کے حوالے سے کبیر حسین منگوانو نے بتایا کہ گلاب کو قدرتی اور آرگینک طریقے سے اگایا جاتا ہے اور مصنوعی کھاد یا کیڑے مار ادویات استعمال نہیں کی جاتیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرون ملک درآمد کرنے کے بعد ان پتیوں کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور اگر اس پر کیڑے مار ادویات کے اثرات پائے جائیں تو ایسی چیز کو دوا یا کاسمیٹکس میں استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس سے مقامی بیوپاری اور پھر کاشت کار کے منافع پر فرق پڑتا ہے۔

گلاب کا پودا لگائے جانے کے بعد بڑھتا رہتا ہے اور ایک خاص حد تک بڑھنے کے بعد اسے تراش دیا جاتا ہے جس کے صرف 40 دن کے اندر وہ پھر سے گلاب کی پیداوار شروع کردیتا ہے۔ ایک پودے کی اوسط عمر 2 سال ہوتی ہے۔

گلاب کی چنائی کے لیے مقامی افراد کو رکھا جاتا ہے جو ان کا ذریعہ روزگار بن جاتا ہے۔ کبیر حسین منگوانو کے فارم پر کام کرنے والی روپی بھی انہی میں سے ایک ہے۔

روپی قریبی گاؤں دودو منگوانو کی رہائشی ہے اور وہ خود، اس کا شوہر اور بڑی عمر کے بچے سب ہی اس کام سے وابستہ ہیں۔ روپی کا کہنا ہے کہ ان کی ایک طے کردہ مزدوری ہوتی ہے جو کلو کے حساب سے طے کی جاتی ہے۔ یعنی جتنے کلو وہ پھول توڑتے ہیں اس حساب سے انہیں مزدوری ملتی ہے۔

روزانہ صبح 5 بجے فارم پر آجانے والی روپی خاصی بے دردی سے پھول توڑتی دکھائی دیتی ہے، اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اسے کم وقت میں زیادہ پھول توڑنے ہیں، اگر وہ نرمی و نزاکت سے پھول توڑنے لگے تو اس کے روز کے کوٹے میں فرق پڑے گا اور اجرت میں کمی آئے گی جو پہلے ہی کرونا وائرس کی وجہ سے خاصی کم ہوچکی ہے۔

فارم پر کام کرنے والا ہر شخص روزانہ اوسطاً 12 سے 15 کلو پھول توڑتا ہے۔ روپی اور اس جیسے سینکڑوں مرد و خواتین اور بچے صبح ہی پھول توڑ کر انہیں بوریوں میں جمع کرتے جاتے ہیں، ان بوریوں کا وزن کیا جاتا ہے، اور پھر شہر سے آنے والی گاڑیاں انہیں لے کر روانہ ہوجاتی ہیں۔ ان گاڑیوں میں برف کی سلیں بھی موجود ہوتی ہیں جو ان پھولوں کو تازہ رکھتی ہیں۔

چنے گئے پھول مارکیٹ بھجوائے جارہے ہیں

کبیر حسین منگوانو اور ان جیسے دیگر کئی کھیت مالکان کے فارم سے چلنے والی گاڑیاں کراچی کے علاقے تین ہٹی آ پہنچتی ہیں۔ یہ گلابوں کی منڈی کہلاتی ہے اور یہاں سے پورے شہر میں گلاب سپلائی کیے جاتے ہیں۔ یہاں پھولوں کی نیلامی اور خرید و فروخت کا عمل انجام پاتا ہے۔

شہر کے مختلف علاقوں سے آنے والے دکاندار یہاں سے مختلف قیمتوں میں پھول اور پتیاں خریدتے ہیں، بعض اوقات وہ گلابوں کی چھانٹی بھی کرتے ہیں، اچھے اور بڑے گلابوں کی زیادہ قیمت بھی دے دیتے ہیں جبکہ چھوٹے گلاب کم قیمت میں بکتے ہیں۔

دلدار احمد کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں پھولوں کی دکان چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی قواعد و ضوابط نہ ہونے کی وجہ سے منڈی سے پھولوں کی فروخت 50 روپے سے لے کر، 60، 70 یا 100 سو روپے فی کلو بھی ہوتی ہے۔ چونکہ یہاں سے مختلف داموں پر خریداری ہوتی ہے، لہٰذا دکاندار آگے جا کر اپنی دکان پر بھی مختلف قیمت پر پھول فروخت کرتے ہیں۔

دلدار احمد کی دکان سے زیادہ تر شادی ہالز یا شادی کے گھروں میں پھول جاتے ہیں، لیکن کرونا وائرس کے دوران شادیوں میں سادگی کا رجحان بڑھ گیا جس سے ان کے کاروبار پر بھی فرق پڑا۔

انہوں نے بتایا کہ پھولوں کی فروخت کا ایک روز شب برات بھی ہوتا ہے۔ اس دن پھولوں اور پتیوں کی فروخت دگنی تگنی ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ بعض فارم مالکان شب برات کے موقع پر خود ہی تین ہٹی آتے ہیں اور خرید و فروخت کے عمل کی نگرانی کرتے ہیں۔


کبیر حسین منگوانو کے فارم سے کچھ فاصلے پر گوادم ہے جہاں ایکسپورٹ ہونے والی پتیاں سکھائی جاتی ہیں، ان پتیوں کو دھوپ میں سکھایا جاتا ہے بعد ازاں بوروں میں بھر کر ایکسپورٹ کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ تاہم کرونا وائرس کی وجہ سے امپورٹ ایکسپورٹ رک گئی تو پتیوں کے بورے گوداموں میں ہی پڑے رہ گئے۔

گلاب کی پتیاں سکھا کر انہیں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے
وبا کے دوران راستے بند ہونے سے پتیاں ایکسپورٹ نہ کی جاسکیں

گلاب سکھانے کے لیے استعمال کیے جانے والے گودام اکثر فارم مالکان ہی کی ملکیت ہوتے ہیں، ان کا شکوہ ہے کہ انہیں ایکسپورٹ تک براہ راست رسائی حاصل نہیں اور اس کے لیے انہیں درمیان میں بیوپاریوں اور ایکسپورٹ سے وابستہ افراد کی مدد لینی پڑتی ہے جس سے منافعے میں کمی آتی ہے۔

کلائمٹ چینج سے پھولوں کی پیداوار متاثر

دنیا بھر میں بدلتے ہوئے موسم نے فصلوں کی تمام اقسام پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور پھول بھی انہی میں سے ایک ہیں۔

ہارٹی کلچر سوسائٹی سے وابستہ ماہر ماحولیات رفیع الحق کا کہنا ہے کہ پھولوں کی فصل کا دارومدار دن میں سورج کی روشنی کی مدت پر ہوتا ہے، سورج کی تمازت میں کمی یا زیادتی بھی پھولوں کے کھلنے اور ان کی افزائش کے عمل کو متاثر کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں مون سون کا سیزن تبدیل ہورہا ہے یعنی جن مہینوں میں بارشیں ہونا تھیں ان میں نہیں ہو رہیں جبکہ جن مہینوں میں بارشوں کا امکان نہیں ہوتا ان دنوں بادل برس رہے ہیں۔ یہ تبدیلی سب ہی فصلوں پر اپنے اثرات مرتب کر رہی ہے۔

علاوہ ازیں پانی کی کمی بھی تمام پھولوں کی پیداوار کو متاثر کر رہی ہے۔

رفیع الحق نے کہا کہ گلاب کے پھولوں کی چنائی، ان کی مقامی طور پر فروخت اور درآمد سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے، پھولوں کی پیداوار میں کمی سے انفرادی اور مجموعی طور پر بھی منفی معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں