سنہ 2019 کے مئی میں جب مجھے سنگاپور میں ہونے والی کلائمٹ چینج کی ایک کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو اس وقت ماہ رمضان ختم ہوا ہی چاہتا تھا، عید سر پر تھی اور دنیا تب تک کرونا وائرس کے نام سے ناواقف تھی، سو دن بدن عید کی گہما گہمی اور مصروفیات بڑھتی جارہی تھیں۔
کانفرنس کی تاریخیں اس طرح سے تھیں کہ عید سنگاپور میں منائی جانی تھی، عید کا مزہ تو گھر میں گھر والوں کے ساتھ ہی آتا ہے، لیکن گھر سے دور ایک اجنبی ملک میں عید منانا اور وہاں کی سرگرمیاں دیکھنا بھی ایک منفرد تجربہ ہوسکتا تھا سو میں نے اپنی جانب سے تصدیق کردی۔
10 دن کے اندر ویزا کے لیے اپلائی کرنا، اسے حاصل کرنا، کانفرنس میں پیش کیے جانے والے اپنے صحافتی کام کے نوٹس اکٹھے کرنا اور پھر گھر سے دور عید کے لیے تیاری کرنا، ان مصروفیات میں دن چٹکی بجاتے گزرے اور ستائیسویں شب ڈھلنے کے بعد جب رات بھر کے جاگے عبادت گزار سحر اور نماز فجر ادا کر کے سونے کی تیاریوں میں مصروف تھے، میں ایئرپورٹ کے لیے رخت سفر باندھ رہی تھی۔
یہ میرا پہلا بین الاقوامی سفر تھا جو میں اکیلے کرنے جارہی تھی۔ ہزار فکریں تھیں، پیسے کم پڑ گئے تو کیا ہوگا، ایئرپورٹ سے ہوٹل تک کی سواری کیسے ملے گی۔ سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ جب تمام منتخب کردہ صحافیوں کو ایک ہی ای میل کی گئی تو میں سب کے اجنبی نام دیکھ کر پریشان ہوگئی، ان میں سے کوئی بھی ایسا نام نہیں تھا جو مانوس ہو۔ مسلمان نام تو دور، کوئی غیر مسلم بھارتی صحافی کا بھی نام نہ دکھائی دیا کہ یہ سوچ کر تسلی ہوجاتی کہ کم از کم زبان تو ایک ہوگی۔ یہ فکر اس وقت دور ہوئی جب اگلی ای میل میں ایک اور نام دکھائی دیا، اطہر پرویز۔ مانوس سا نام دیکھ کر جان میں جان آئی، گوگل پر سرچ کیا تو ٹویٹر نے بتایا کہ ان کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے، اتنا ہی کافی تھا۔
کراچی سے بذریعہ دوحا سنگاپور آمد، رات کے وقت جب موسلا دھار بارش ہورہی تھی، ایئرپورٹ سے ہوٹل تک کا سفر اور پھر ہوٹل میں ایک تکنیکی الجھن الگ مضمون کی متقاضی ہے۔ سنگاپور کا وقت پاکستان سے 3 گھنٹہ آگے ہے، چنانچہ میں نے ہوٹل پہنچ کر سامان رکھا اور وائی فائی کنیکٹ کر کے گھر کال ملائی تو اس وقت رات کے 11 بج رہے تھے، لیکن گھر والوں نے تھوڑی دیر قبل ہی افطار کیا تھا۔ ماہ رمضان کی مناسبت سے طیارے میں بھی اس کا خیال رکھا گیا تھا اور دوحا سے 7 گھنٹے کی فلائٹ کے دوران ایک مقام پر جب مغرب کا وقت ہوا تو روزے داروں کے لیے افطار کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ ایئر ہوسٹس پہلے ہی سب سے پوچھ کر جا چکی تھی کہ طیارے میں کتنے مسافر روزہ دار ہیں۔
سنگاپور جنوب مشرقی ایشیا میں جزیرہ نما چھوٹا سا ملک ہے جو اپنی ترقی اور خوشحالی میں یورپی ممالک کو بھی مات کرتا ہے۔ سنہ 1965 میں ملائیشیا سے الگ ہونے والے اس ریاست کے ملائیشیا سے تعلقات بے مثال ہیں۔ برطانیہ نے بھی اس علاقے کو 152 سالوں تک اپنے زیر تسلط رکھا۔ سنگاپور کی 36 فیصد آبادی تارکین وطن پر مشتمل ہے، ملایا، چینی، تامل اور انگریزی زبان کو سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے جبکہ بدھ ازم، ہندو مت، اسلام اور عیسائیت ملک کے 4 بڑے مذاہب میں سے ایک ہیں۔
یہ چھوٹا سا ملک ترقی اور خوشحالی میں یورپی ممالک کو بھی مات کرتا ہے
سنگاپور کی خاص بات یہاں کی صفائی ستھرائی اور نفاست ہے، ملک میں سڑک پر چیونگم پھینکنے پر بھی بھاری جرمانہ عائد ہے۔ صفائی یہاں کے لوگوں کی عادت نہیں بلکہ سماجی اقدار میں سے ایک ہے۔ ہر شعبہ جدید ٹیکنالوجی سے مزین اور خودکار سسٹم سے آراستہ ہے۔ سنگاپور کا چانگی ایئرپورٹ دنیا کے بہترین اور خوبصورت ترین ایئرپورٹس میں سے ایک مانا جاتا ہے، یہ ایئرپورٹ صرف طیاروں کے آمد و رفت کا مقام نہیں بلکہ پوری تفریح گاہ ہے جہاں پروازوں کا انتظار کرتے مسافروں کے لیے دنیا کی تمام تر تفریحی سہولیات موجود ہیں جبکہ ایئرپورٹ پر مصنوعی جنگل اور پہاڑیاں بھی بنائی گئی ہیں۔
سنگاپور کو خوبصورت بنانے والا ایک اور پہلو یہاں کا قدرتی ماحول ہے۔ یہاں بلند و بالا عمارتوں کا منظم جنگل ضرور ہے لیکن فطرت سے منہ نہیں موڑا گیا، جہاں کہیں سبزہ موجود تھا اسے رہنے دیا گیا اور جہاں نہیں تھا وہاں اگا دیا گیا۔ بلند و بالا عمارات سبزے سے ڈھکی دکھائی دیتی ہیں یوں اماراتی شہروں خصوصاً دبئی جیسی مصنوعیت کا احساس بھی ختم ہوجاتا ہے۔ پورا ملک منصوبہ بندی کے ساتھ نہایت منظم انداز میں بسایا گیا ہے جہاں کہیں بھی بے ترتیبی دکھائی نہیں دیتی۔
کانفرنس میں انڈونیشیا، ملائیشیا، چین، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے صحافیوں کو منتخب کیا گیا تھا۔ اطہر پرویز سے کانفرنس کے پہلے دن دوپہر کے قریب ملاقات ہوئی، وہ ماحولیات پر کام کرنے والے کئی پاکستانی صحافیوں کو جانتے تھے۔ اس سے قبل ہی بنگلہ دیش سے آئی صحافی بنانی ملک سے خاصی دوستی ہوگئی جو ٹوٹی پھوٹی اردو میں بات کیا کرتی تھیں۔ ان کا نک نیم بانی تھا، بانی اکثر بے دھیانی میں مجھے شونا مونی کہہ کر مخاطب کرتی اور بنگلہ زبان میں گفتگو شروع کردیتی، آدھی بات کرنے کے بعد جب وہ میرے تاثرات دیکھتی تو اسے غلطی کا احساس ہوتا اور مسکرا کر کہتی، میں بھول جاتی ہوں تمہیں بنگلہ نہیں آتی۔ بعد میں، زبان کی وجہ سے میں، اطہر اور بانی گروپ کے دیگر افراد کے برعکس آپس میں زیادہ بے تکلف ہوگئے۔
یہ پورے ہفتے کی کانفرنس نئے تجربات کا ایسا مجموعہ تھی جسے لکھنے بیٹھا جائے تو کتاب رقم ہوجائے، قصہ مختصر کر کے عید کے دن کی طرف بڑھتے ہیں۔
کانفرنس کے تیسرے دن عید تھی جو سنگاپور میں پہلے سے طے شدہ تھی، رویت ہلال کا کوئی جھگڑا ہی نہیں تھا۔ فیس بک سے پتہ چلا کہ پاکستان میں بھی چاند دکھائی دے چکا ہے اور سنگاپور اور پاکستان میں ایک ہی دن عید ہوگی۔
عید سے ایک دن قبل شام میں ہماری مسلمان کوآرڈینیٹر ظفیرا نے رخصت لی، اس نے بتایا کہ کل وہ نہیں آئے گی کیونکہ کل عید کا دن ہے، اس وقت گھر جا کر اسے گھر والوں کے ساتھ عید کی تیاریاں کرنی تھیں۔ گروپ کے انڈونیشی ساتھی ڈونی نے بتایا کہ انڈونیشیا سے اس کی فیملی یہاں پہنچ چکی ہے، کل انڈونیشین سفارت خانے میں عید کے حوالے سے تقریب رکھی گئی ہے جس میں وہ اپنے اہلخانہ کے ساتھ شرکت کرے گا لہٰذا کل کا دن وہ بھی ہمارے ساتھ موجود نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ ملائیشیا، انڈونیشیا اور سنگاپور کے شہریوں کو ایک دوسرے کے ممالک میں داخلے کے لیے ویزا کی قطعی ضرورت نہیں اور تینوں ممالک کے درمیان سفر ایسے ہوتا ہے جیسے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر۔
اطہر نے ان سب سے قریب موجود مسجد کا پوچھا جہاں نماز عید ادا کی جاسکے۔ ظفیرا اور ڈونی نے مشورہ دیا کہ اس موقع پر سلطان مسجد کا دورہ کرنا چاہیئے۔ عید کے روز کانفرنس کا کوئی سیشن نہیں تھا بلکہ فیلڈ ٹرپس رکھے گئے تھے جن کے لیے دوپہر کے بعد نکلنا تھا۔ میں نے اطہر سے کہا کہ جب وہ نماز پڑھنے کے لیے نکلیں گے تو میں بھی ان کے ساتھ چلوں گی، اس وقت تک مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ مسجد میں خواتین کے لیے بھی جگہ موجود ہوگی، میرا ارادہ اطہر کے نماز پڑھنے تک ادھر ادھر گھومنے کا تھا۔
اگلے دن صبح جلدی اٹھ کر ہم ناشتے کے لیے پہنچے تاکہ مسجد کے لیے جلدی نکلا جاسکے۔ اطہر روایتی شلوار کرتے اور ٹوپی میں ملبوس تھے۔ ہم حسب معمول ٹیکسی کے لیے ہوٹل کے گیٹ پر جا کھڑے ہوئے۔ یہاں تمام تفریحی مقامات پر ٹیکسیاں اور مسافر قطار میں کھڑے ہوتے ہیں، باری باری ایک ٹیکسی آگے بڑھتی ہے اور سب سے آگے کھڑے مسافر کو لے کر روانہ ہوجاتی ہے۔ کرایہ خود کار میٹر کے ذریعے لیا جاتا ہے۔ نہ ڈرائیور راستے کی طوالت پر بحث کرتا ہے نہ کرایے پر بھاؤ تاؤ کیا جاتا ہے۔ دن کے کچھ حصوں میں البتہ پیک فیکٹر ہوتا ہے اور اس وقت ٹیکسی کا کرایہ دگنا ہوتا ہے۔ ہوٹل کے دربان نے قطار میں کھڑی ٹیکسی کو اشارہ کر کے ہم سے پوچھا، کدھر کو؟ ہم نے سلطان مسجد کا بتایا تو وہ مسکرا دیا۔ اس نے ہمیں عید کی مبارکباد دی اور بتایا کہ آج مسجد میں بہت رش ہوگا۔
اگلے 10 منٹ میں ہم جامع مسجد کے پاس اتر چکے تھے۔ سنہری گنبد والی یہ خوبصورت مسجد سنہ 1824 میں تعمیر کی گئی تھی اور اس کا سہرا سنگاپور کے پہلے مسلمان بادشاہ سلطان حسین شاہ کے سر ہے۔ اس وقت سنگاپور، ریاست جوہور کا حصہ تھا۔ سلطان اپنا محل بنوا کر یہاں منتقل ہوئے تو انہیں اور ان کے خاندان کو باقاعدہ مسجد کی ضرورت پڑی جس کے بعد اس مسجد کی تعمیر کی گئی۔ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی اس مسجد کی تعمیر کے لیے رقم فراہم کی تھی۔
ایک صدی سے بھی کم عرصے میں علاقے کی یہ مسجد چھوٹی پڑنے لگی اور یہاں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی جس کے بعد سنگاپور میں مزید مساجد کی تعمیر شروع کی گئی۔ سنہ 1975 میں اس مسجد کو سنگاپور کے قومی ورثے کا درجہ دے دیا گیا، اپنی خوبصورتی اور تاریخ کے باعث یہ مسجد نہ صرف سنگاپور بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے خاصی اہمیت رکھتی ہے۔
مسجد میں خواتین کے لیے بھی علیحدہ حصہ مختص کیا گیا ہے جہاں عید کے روز تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ مرد، خواتین، بچے، بزرگ غرض پورے پورے خاندان نئے کپڑے پہنے سجے سنورے مسجد کی طرف آرہے تھے۔ عید کی نماز صرف مردوں کے ہی نہیں بلکہ خواتین کے بھی عید معمول کا حصہ تھی۔
میں اور اطہر ہوٹل کے وائی فائی کے ذریعے واٹس ایپ پر ایک دوسرے سے رابطہ کرتے تھے اور ہوٹل سے باہر ہمارے پاس رابطے کا کوئی ذریعہ نہ تھا، سو اطہر نے ایک جگہ منتخب کی اور کہا کہ نماز کے بعد یہاں پر ملیں گے۔ اطہر مردانہ اور میں زنانہ حصے کی طرف بڑھ گئی۔ وضو خانہ کھچا کھچ بھرا تھا اور عملے کے 2 افراد صفائی کا سامان لیے وضو خانے کو صاف رکھنے کی ناکام کوشش میں تھے۔ خواتین کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ رش سے تنگ آ کر میں مسجد کے باہر اطہر کی بتائی ہوئی جگہ آ کر کھڑی ہوگئی۔ مسجد کی پوری گلی کی دیواروں پر خوبصورت پینٹنگز بنائی گئی تھیں، کہیں کہیں پر آیات بھی لکھی ہوئی تھیں۔
آہستہ آہستہ نمازیوں کی تعداد مسجد کے باہر تک پہنچ گئی اور گلی میں صفیں لگ گئیں، لوگوں کی آمد تاحال جاری تھی اور یہ اکا دکا لوگ نہیں تھے بلکہ پورے پورے خاندان تھے جو ذاتی گاڑیوں یا پبلک ٹرانسپورٹ میں وہاں پہنچ رہے تھے۔
کافی دیر تک نماز شروع نہیں ہوئی اور نمازیوں میں بھی بے چینی نظر آنے لگی۔ میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ نماز ابھی تک شروع نہیں ہوئی کیا کوئی خاص وجہ ہے؟ اس نے کہا کہ کسی کا انتظار ہو رہا ہے، شاید کوئی آفیشل آنے والا ہے۔ ابھی الفاظ اس کے منہ میں ہی تھے کہ سائرن بجاتی دو ہیوی بائیکس گلی کے کونے پر رکیں جن پر سفید لباس میں جدید کمیونیکیشن آلات سے آراستہ دو افراد سوار تھے۔ بائیکس رکتے ہی ایک سفید گاڑی وہاں پہنچی اور مسجد کی گلی میں داخل ہوگئی، اس گاڑی کے پیچھے صرف ایک اور گاڑی مزید تھی۔ 2 گاڑیوں اور2 بائیکس پر مشتمل یہ قافلہ سربراہ مملکت کا تھا۔ سفید گاڑی سے صدر حلیمہ یعقوب اتریں جن کے استقبال کے لیے انتظامیہ کے افراد وہاں موجود تھے۔ اس دوران نہ کسی شخص کو وہاں آنے سے روکا گیا نہ کوئی بھگدڑ مچی۔ خاتون صدر سے چند قدم کے فاصلے پر فٹ پاتھ پر لوگوں کی آمد جاری تھی اور مقامی افراد انہیں دیکھ کر مسکراتے اور سلام کرتے ان کے برابر سے گزر رہے تھے۔ میرے اور صدر مملکت کے درمیان اس تنگ گلی میں صرف سفید گاڑی کا ہی فاصلہ تھا۔
حلیمہ یعقوب خوشدلی سے سب سے ملیں اور مسجد کے اندر چلی گئیں جس کے تھوڑی دیر ہی بعد نماز عید کا آغاز ہوگیا۔
حلیمہ یعقوب سنگاپور کی تاریخ کی پہلی خاتون صدر ہیں جو سنہ 2017 میں منتخب ہوئیں۔ سنگاپور میں صدر کا انتخاب عوام کے ووٹوں کے ذریعے ہوتا ہے تاہم حلیمہ یعقوب کے مدمقابل کوئی امیدوار نہیں تھا جس کے بعد وہ بلا مقابلہ منتخب ہوئیں۔ وہ ملک کی مسلح افواج کی کمانڈر ان چیف بھی ہیں جبکہ حکومت کی باگ ڈور وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو اس وقت لی ہین لونگ ہیں اور سنہ 2004 سے اس عہدے پر فائز ہیں۔
فٹ پاتھ پر اس وقت لوگوں کی تعداد اور دھوپ بڑھتی جارہی تھی جس کے بعد میں گلی سے نکل کر سڑک پر آگئی۔ یہ تجارتی علاقہ تھا جہاں مختلف دکانیں موجود تھیں، دکانوں کی دیواروں پر شوخ رنگ و روغن کیا گیا تھا اور تصاویر بنائی گئی تھیں۔ میں فوٹو گرافی کرتے ہوئے اطہر کا انتظار کرنے لگی۔ جب خاصی دیر ہوگئی اور اطہر نہیں آئے تو میں نے ٹیکسی پکڑ کر واپس ہوٹل جانے کا فیصلہ کرلیا، لیکن اس سے پہلے کہ میں اس پر عمل کرتی کہ اطہر صاحب ادھر ادھر دیکھتے گلی سے باہر آتے دکھائی دیے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے، آدھے گھنٹے سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں، آپ وہاں کیوں نہیں کھڑی تھیں جہاں طے ہوا تھا؟ میں سوچ رہا تھا آخر آپ نے نماز پڑھنے میں اتنی دیر کیوں لگا دی۔ میں نے انہیں بتایا کہ وہاں بڑھتے ہوئے رش نے مجھے وہاں سے نکلنے نے مجبور کیا۔
واپسی میں ہم ٹیکسی کرنے کے بجائے پیدل ہی چل پڑے، اس کے بعد راستہ بھٹکنے، بسوں میں سفر اور دس منٹ کا سفر ایک گھنٹے میں طے ہونے کی الگ کہانی ہے۔ ایک بجے ہمیں فیلڈ ٹرپ کے لیے نکلنا تھا۔ میں نے ہوٹل واپس آ کر فون سائلنٹ پر کیا اور لمبی تان کر سوگئی۔ آخر عید کے دن سونے کی روایت بھی تو پوری کرنی تھی۔
bostancı escort bayan
ümraniye escort bayan
ümraniye escort
anadolu yakası escort bayan
göztepe escort bayan
şerifali escort
maltepe escort
maltepe escort bayan
tuzla escort
kurtköy escort
kurtköy escort bayan