دنیا کے تمام مذاہب نے انسانوں کو صبر و تحمّل اور برداشت کا درس دیا ہے اور انبیائے کرام اور ہر دور کی برگزیدہ ہستیوں کی زندگیوں کو ہمارے سامنے مثال بنا کر پیش کیا ہے۔
اسلام اور دیگر تمام مذاہب میں پیغمبروں اور روحانی شخصیات کی عام زندگی اور دعوت و تبلیغ کے راستے میں صعوبتوں پر ان کے صبر و برداشت، استقامت اور قربانیوں کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے۔
آج دنیا بھر میں برداشت اور رواداری کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ یہ دن ہر سال اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام 16 نومبر کو منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں پُر امن معاشروں کا قیام انسانوں کے بنیادی حقوق بشمول مذہب و عقیدہ، ثقافت، زبان اور کسی بھی معاملے میں ان کے حقِ رائے دہی کو اہمیت دینے اور اسے قبول کرنے کی بدولت ممکن ہے۔
پاکستان کی بات کی جائے تو ہمارا معاشرہ کئی اعتبار سے اس فلسفہ حیات اور طرزِ زندگی سے بیزار نظر آتا ہے جو کسی بھی قوم کی اجتماعی حالت بدلنے اور اسے خوش حال بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں، لیکن آج پاکستانی لوگوں کو صبروتحمل اور برداشت کی اہمیت پر آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
عدم برداشت کے نتیجے میں ہمارے معاشرے پر تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں جس نے فرد اور معاشرے کے ہر گروہ کی صلاحیت اور قابلیت کو بھی متاثر کیا ہے۔ برداشت اور رواداری کے عالمی دن کو منانے کا ایک مقصد لوگوں کو دوسروں کے عقائد، ان کی فکر اور بعض معاملات میں رائے کا احترام کرنا سکھانا بھی ہے۔ پاکستان میں ہر قوم، رنگ و نسل اور مذہب کے ماننے والے بستے ہیں جن کا آپس میں بھائی چارہ، اتحاد اور برداشت کے ساتھ عقائد اور رائے کو قبول کرنا امن و سکون قائم رکھنے اور ترقی کا ذریعہ ہے۔
پاکستانی معاشرے میں صبر و تحمل ، برداشت، رواداری کو فروغ دینے کے لیے حکومت کی جانب سے سیمینار اور ایسی نشستوں کا اہتمام کرنا چاہیے جن میں اہلِ علم و دانش اور عالم و اساتذہ شریک ہوں اور اپنی فکر و نظر کا اظہار کریں، لیکن یہ کام حکومت ہی کا نہیں بلکہ ملک بھر میں موجود مختلف مذاہب و طبقات کی ترجمانی اور راہ نمائی کرنے والی تنظیموں کے سربراہ اور کرتا دھرتا بھی اپنے پلیٹ فارم پر لوگوں کو اکٹھا کرکے اس بارے میں آگاہی دیں۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گاکہ قتل و غارت اور دنگا فساد کے ساتھ بیش تر تنازعات کے پس پردہ عوامل کی بڑی وجہ عدم برداشت کا رویّہ رہا ہے، لیکن آج دنیا ایک مٹھی میں سمٹ آئی ہے اور ہم ایسے ماحول اور طرزِ زندگی کا حصّہ بن چکے ہیں، جس میں سوشل میڈیا کے ذریعے پلک جھپکتے ہی کسی بھی واقعے پر مثبت یا شدید منفی ردعمل سامنے آجاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس دور میں دنیا کی مختلف اقوام اگر سرحد سمیت کسی بھی شعبے میں اپنے مخالف کو یا اس کی خواہش اور رائے کو برداشت کرنے کو تیّار نہیں ہوتیں تو ٹکراؤ اور تصادم کی صورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک معاشرہ نہیں بلکہ دنیا کا امن بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ اس کی مثال عالمی جنگیں ہیں جس میں اپنے اپنے مفاد کے لیے مختلف ممالک جب متحد ہوئے تو خونریزی اور ہولناک تباہی کے سوا دنیا کو کچھ نہیں دیا۔
دوسری جنگِ عظیم کا ذمہ دار جرمنی کے آمر ہٹلر کو قرار دیا جاتا ہے جس کے زیرِ قیادت نازی افواج نے لاکھوں انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اعلان کرتے ہوئے دنیا کے تمام ممبر ممالک کو یہ دن منانے کی دعوت دی اسی لیے دی گئی تھی کہ پُرامن اور مثبت و تعمیری فکر کے حامل معاشرے پروان چڑھیں اور یوں 2005ء میں پہلی بار یہ دن منایا گیا۔
اسے کیا کہیے کہ پاکستان ہی نہیں دنیا کے مہذّب اور ترقی یافتہ معاشروں میں بھی اختلافِ رائے پر عدم برداشت کے مظاہرے عام ہوگئے ہیں۔ وہ امریکا ہو یا دوسرے مغربی ممالک، یورپ ہو یا ایشیا دنیا کو عالمی سطح پر عدم برداشت کا سامنا ہے جس میں معصوم جانیں ضایع اور املاک برباد ہورہی ہیں۔ افغانستان، عراق، ایران، شام، فلسطین، کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح ماضی کے کئی تنازع معصوم بچّوں سمیت ہر قیمتی انسانی جان کو نگلتے رہے ہیں جب کہ ان میں سے اکثر کا حل ایک فورم پر اکٹھا ہوکر مذاکرات اور حکمتِ عملی کے ذریعے نکالا جاسکتا تھا۔
ہمارے ملک میں علمی و فکری مباحث کی گنجائش کم ہی ہے جب کہ لسانی اور ثقافتی بنیادوں پر بھی عام لوگوں کو چھوڑ کر کسی اہم علمی و ادبی اور قابل شخصیت کے لیے بھی اپنے رائے کا اظہار کرنا اکثر مشکل کا باعث بن جاتا ہے جب کہ مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے کئی واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں جو معاشرے میں عدم برداشت کی عکاسی کرتے ہیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا سیاسی مخالفین یا کسی بھی شعبے میں کسی بھی حوالے سے اختلافِ رائے کے بعد کسی پر کیچڑ اچھالنا معمول بن گیا ہے اور ایسے تنازع اور بحث میں بگڑنے کے بعد فریقین کی جانب سے مخالف کے اہلِ خانہ کو بھی گھسیٹ لیا جاتا ہے جس کی کئی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ ذاتی نوعیت کے حملے عدم برداشت کی بدترین مثال ہیں جس نے اعلیٰ اخلاقی اقدار اور انسانی صفات کو داغدار کردیا ہے۔
اسلام ہمیں صبر و تحمل، برداشت اور رواداری جیسے اعلیٰ انسانی اوصاف اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر آسمانی کتابوں اور دنیا کے دوسرے مذاہب میں بھی ایسی ہی تعلیمات ملتی ہیں جن میں عمدہ انسانی خصائل کے تذکرے میں رواداری، بھائی چارہ اور محبت و یگانگت کی بات کی گئی ہے۔
عام اختلافات ایک طرف دو افراد یا کسی بھی قوم اور گروہ میں تنازع اور سخت و شدید نوعیت کے مباحث کا جنم لینا فطری بات ہے، لیکن اس پر ادب و تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے عقل و ہوش کے ساتھ استدلال، منطق اور ذہانت سے اپنی بات کو منوانا ہی تو اعلیٰ انسانی وصف ہے۔
عدم برداشت کا مظاہرہ ایک فرد کی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے اور ایسا منفی اثر ڈالتا ہے کہ رفتہ رفتہ اس کے سوچنے سمجھے کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے اور وہ دوسروں کی نظر میں بدتمیز، جارح اور بدکلام اور جھگڑالو کہلاتا ہے۔
اس دن کی مناسبت سے والدین اپنے بچّوں کو اور اسکولوں کی سطح پر اساتذہ بھی برداشت اور رواداری کا درس دیں اور انھیں ایسے مضامین، کہانیاں وغیرہ پڑھنے یا سننے کا موقع دیں جن سے وہ برداشت کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ انھیں بتانا ضروری ہے کہ برداشت، درگزر اور رواداری ایک متوازن اور بھرپور زندگی گزارنے کے لیے بہت اہم عناصر ہیں۔
پیغمبروں اور روحانی شخصیات کے ساتھ اگر ہم دنیا کے کام یاب ترین لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کریں تو انھوں نے صبر، قناعت، درگزر کے ساتھ ہر موقع پر عقل و شعور کا مظاہرہ کیا اور رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچے ہیں۔ برگزیدہ ہستیوں کے اپنی قوم میں تبدیلی اور معاشروں میں لائے ہوئے انقلاب کے بعد دنیا کے معتبر اور قابلِ ذکر ناموں نے اگر قیامِ امن سے لے کر معاشروں کی ترقّی تک کوئی کارنامہ انجام دیا ہے تو ان کا سب سے بڑا ہتھیار برداشت اور رواداری ہی تھا۔