سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں جہاں انقلابی اور حیرت انگیز تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے، وہیں فنونِ لطیفہ کے شعبہ جات اور ثقافت کے میدان میں بھی دنیا ہنگامہ خیز تبدیلیاں دیکھ رہی ہے۔ یہ ایسی تبدیلیاں ہیں جن کے اثرات ہمہ گیر ہیں۔
پاکستان بھی ثقافتی تبدیلیاں اور آرٹ کے شعبہ جات میں اظہار کی جدید اور مختلف شکلیں عام ہورہی ہیں جب کہ عام لوگوں کی تفریح کے ذرایع اور ان کا معیار بھی تبدیل ہوچکا ہے جو ایک فطری بات ہے۔ اسی طرح فن کار بھی جدّت اور اختراع کے ساتھ نئے انداز سے اپنی صلاحیتوں کو منوا رہے ہیں، لیکن کیا یہ معاشرہ آسانی سے اس کلچر اور فنونِ لطیفہ کی ان شکلوں کو قبول کرسکتا ہے جسے وہ ماضی میں بھی غیروں کی نقّالی کہہ کر مسترد کرتا رہا ہے۔ آج جب کہ گلوبلائزیشن کا زمانہ ہے، ہم ثقافتی تنوع اور رنگارنگی کو قبول کرنے کے بجائے اسے مغرب اور یورپ کا پروپیگنڈہ اور برصغیر کی ہزاروں سال پرانی روایات اور ثقافت پر حملہ تصور کرتے ہیں۔
پاکستان ہی نہیں بی ٹی ایس (beyond the scene) نامی کوریا کا ایک بینڈ اس وقت دنیا بھر میں مقبول ہے۔ یہ کوریا کے شہر سیول کے سات نوجوانوں کا بینڈ ہے جو انھوں نے 2013ء میں بنایا تھا۔ اس کا نام پہلے ‘بینگٹین بوائز’ تھا جسے 2017ء میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ آج پاکستان میں بھی بی ٹی ایس کے دیوانے موجود ہیں۔ ہپ ہاپ میوزک سے آغاز کرنے والا یہ بینڈ اب اپنی کثیر ثقافتی شناخت قائم کرنے جارہا ہے جس کے لیے وہ مختلف انداز کی موسیقی اور زبان کو بھی استعمال کررہا ہے۔ اس بینڈ کے نوجوان گلوکاروں کو ایشیا کے پرکشش ترین مرد ہونے کا اعزاز بھی مل چکا ہے۔
گلوبلائزیشن کے اس دور میں ذہن سازی اور رائے عامّہ ہموار کرنے کا بڑا ذریعہ سوشل میڈیا اور ایسے ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہیں جو آج ہر پاکستانی نوجوان کی دسترس میں ہیں اور تفریح اور وقت گزاری کا بڑا ذریعہ ہیں۔ اس بینڈ کو اسی تسلسل میں خاص اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ عالمی ذرایع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بی ٹی ایس کی بے انتہا پذیرائی اور تشہیر کے بعد مختلف ممالک کے نوجوان اس سے متاثر نظر آتے ہیں اور پاکستان میں بھی ان گلوکاروں کو سراہا جا رہا ہے۔ پڑھے لکھے پاکستانی نوجوانوں کا کہنا ہے کہ بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ دور دراز کے خطّوں میں بسنے والی اقوام کی تہذیب اور ان کی ثقافت سے شناسائی اہم اور ضروری ہے۔
کہتے ہیں، ثقافت ایک طاقت ہے اور آج کے دور میں مختلف اقوام حکمتِ عملی سے کام لے کر اپنے فن کاروں کے ذریعے ثقافت کا پرچار کررہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ آرٹ کی دنیا کے مشہور ناموں اور مقبول فن کاروں کی بدولت یہ ممالک اپنی معیشت کو مضبوط کر رہے ہیں۔ امریکا، فرانس، جرمنی اور اس جیسے دیگر ممالک اپنے فن کاروں کی مدد سے اپنی ثقافتی مصنوعات کو دنیا بھر میں متعارف کروا کے ان کی فروخت سے کثیر زرِ مبادلہ کما رہے ہیں۔ اس میں موسیقی اور گلوکاری کے علاوہ اسٹیج پرفارمنس، ڈرامہ، فلم، مصوّری کے مختلف انداز اور جدید تیکنیک، رقص اور لائف اسٹائل بھی شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق ہالی وڈ کی فلمیں اور دوسرے پروگرام امریکا اور دوسرے ممالک کو بلین ڈالرز کمانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح گلوکاری اور موسیقی کا شعبہ بھی اپنی انڈسٹری اور کسی ملک کے قومی خزانے کو مالی فوائد دے رہا ہے۔ اگر ہم بات کریں بی ٹی ایس بینڈ اور ‘کے پوپ’ کے نام سے معروف جنوبی کورین موسیقی کی جو کئی ممالک کی موسیقی کی اصناف کا ملاپ اور امتزاج ہے، اس نے ترقی کی نئی منازل طے کرنے کے ساتھ دنیا میں ایک نئی طرزِ گائیکی اور اسٹائل کو متعارف کروایا ہے جسے کورین ثقافتی لہر بھی کہا جارہا ہے۔
‘کے پوپ’ کی مقبولیت کی بڑی وجہ وہ حکمت عملی ہے جس کے تحت گلوکاروں کو دنیا میں متعارف کرایا جارہا ہے۔ ان گلوکاروں کو میڈیا مارکیٹنگ کی کمپنیاں ملازمت دیتی ہیں اور انھیں تربیت کے منظّم مراحل سے گزارا جاتا ہے جس میں ڈانس، موسیقی، لائف اسٹائل اور زبانوں کی تعلیم بھی شامل ہے۔ زبانوں کی تعلیم دراصل دوسرے ممالک کی ثقافت کو سمجھتے ہوئے وہاں بسنے والے موسیقی اور گلوکاری کے لاکھوں شائقین کو ان گلوکاروں کے قریب لانا ہے۔ انھیں انگریزی، چینی، جاپانی اور دیگر زبانیں سکھائی جارہی ہیں۔
کے پوپ کی ثقافتی لہر کے اثرات امریکہ کے علاوہ جاپان، چین، آسٹریلیا، سنگا پور ہی نہیں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں دکھائی دیتے ہیں اور پاکستان میں بھی اس کی مقبولیت بڑھی ہے، لیکن امریکا اور برطانیہ میں اس پر ماہرین کی آرا مختلف بھی ہیں اور ان گلوکاروں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی مختلف ثقافتی گروہوں کے علاوہ عام طبقات اس قسم کے رجحان کو مفید اور مؤثر نہیں سمجھتے۔ سوشل میڈیا پر لوک ثقافت اور مقامی موسیقی اور گائیکی کے دیوانے ایسے ثقافتی مظاہر اور تجربات کو غیر ضروری اور فضول سمجھ کر مسترد کررہے ہیں۔
شاید ایسا ہی ہو، یہ موسیقی اور ثقافتی لہر ہمارے معاشرے کے لیے کسی طرح بہتر، مفید یا موزوں نہ ہو، لیکن ایک بات جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہم اپنے نوجوانوں سے کھیل کے میدان چھین کر، مثبت اور تعمیری تفریح کے ذرائع محدود کر کے، آرٹ کے مختلف شعبوں میں انھیں تعلیم و تربیت اور سہولت سے محروم رکھ کر اس یلغار سے کیسے بچا سکتے ہیں؟ کیا پاکستان میں فن و ثقافت کے مختلف شعبوں اور فن کاروں کو حکومتی سرپرستی، سہولیات اور وسائل کے ساتھ مالی امداد دی جاتی ہے جو نوجوانوں کو اپنی روایات اور ثقافت میں رنگتے ہوئے تفریح اور صلاحیتوں کے اظہار میں مددگار ثابت ہوں؟ ہمارے ملک میں حکومتی سطح پر آرٹ اور فنون کے ساتھ ڈیجیٹل میڈیا کی تعلیم دیتے ہوئے باصلاحیت نوجوانوں کو اپنے فن اور تخلیقی صلاحیتوں کو منوانے کے کتنے مواقع اور ذرائع میسر ہیں؟
ایک نہیں، کئی مثالیں موجود ہیں جب یہاں علم و فنون سے وابستہ شخصیات کو کسمپرسی کے عالم میں دنیا سے گزر جانے کے بعد صرف اور صرف تعزیتی پیغامات میں سراہا گیا اور بس۔ ان حالات میں ہم اپنے مستقبل کو سنوارنے اور نئی نسل کو اپنی روایات، تہذیب اور ثقافت سے جڑا ہوا دیکھنے کے آرزو مند ہیں تو یہ خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا نوجوان غیروں کا لائف اسٹائل، ان کی ثقافت کو نہ اپنائے یا اپنی تہذیب اور ثقافت سے مزید دور نہ جائے تو اسے تعمیری اور بامقصد تفریح کا راستہ دیتے ہوئے وہ تمام جدید سہولیات اور وسائل مہیا کرنے ہوں گے جو ہمارے معاشرے کی روایات اور ثقافت کو زندہ رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
سدرہ ایاز صحافتی اداروں اور مارکیٹنگ کمپنیوں سے وابستہ رہی ہیں، سیروسیاحت کا شوق رکھتی ہیں، گھومنا پھرنا پسند ہے، اور اپنے انہی مشاغل اور مختلف سرگرمیوں کی انجام دہی کے ساتھ شاعری اور مختلف سماجی موضوعات پر مضامین اور بلاگ لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔