The news is by your side.

کیا اس شہر کے باسی اب ڈکیتوں کا بھی احترام کریں؟ شاہ رخ کا قتل اور  محکمہ پولیس سے چند سوال!

کراچی کا شاہ رخ اپنی والدہ اور بہن کے سامنے قتل ہوا اور اسے قتل کرنے والا ایک پولیس اہلکار تھا جو اس وقت ڈکیت کےروپ میں تھا یا یوں کہیے کہ ایک ڈکیت تھا جس نے پولیس کے محکمے میں پناہ حاصل کی ہوئی تھی-

جو بھی کہیے مگر شاہ رخ کے اندوہناک قتل پر ہر آنکھ اشکبار تو تھی مگر اس حقیقت نے مجھے اور مجھ سمیت ہر حساس شہری کو سخت تشویش میں مبتلا کردیا کہ وہ سفاک قاتل جسے وہ کوئی بےرحم رہزن سمجھ رہے تھے وہ ایک پولیس اہلکار تھا اور کئی وارداتوں میں ملوث تھا ،پہلے بھی گرفتار ہوا تھا، اس پر ڈکیتی اور منشیات فروشی کے الزامات تھے-

حیران کن امر تو یہ ہے کہ اس قدر عادی مجرم مرتے  دم تک پولیس کا حصہ تھا اور سپیشل انوسٹی گیشن یونٹ میں تعینات تھا-

سوالات کا ایک انبار ہے جو ہر حساس شہری کے دل و دماغ پر  طاری ہے کہ کیا اس شہر میں ایک پولیس اہلکار پر بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، کیا ہمارا محافظ بھی رہزن ہوسکتا ہے؟ کیا وہ اس قدر سفاک بھی ہوسکتا ہے کہ جس عوام کے ٹیکس کے پیسے سے اسے تنخواہ ملتی ہے اسی پر گولی چلادے؟ کیا جن تھانوں اور پولیس کے ذیلی محکموں میں وہ تعینات رہا وہاں اسکے “باخبر”ساتھی اسکی ان کارروائیوں سے بے خبر تھے؟

اسکے زیر استعمال سرکاری اسلحہ سے جو کارروائیاں وہ کرتا رہا کیا محکمہ کے افسران اور ساتھی ان کارروائیوں سے بے خبر تھے؟ کیا منشیات فروشی جیسے قبیح جرم کے ارتکاب پر بھی محکمہ آنکھیں بند کئے ہوئے تھا؟

یہ سوالات تو میں اسلئے پوچھ رہا ہوں کہ ایک خبر کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم ان مقدمات میں عدالت سے بری ہو کر عہدے پر تعینات ہوا تھا، ورنہ سوالوں کی فہرست مزید طویل ہوتی۔

سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ عدالت کو  آپ کے “پیٹی بھائی” کے خلاف ثبوت  فراہم کرنا کس کی ذمہ داری تھی؟ کیا ایسے مجرم کا بری ہوجانا اور دوبارہ محکمے کا حصہ بن جانے کے عمل کو آپ کی “نااہلی” نہیں کہا جانا چاہئیے؟

ایک رپورٹ کے مطابق ملزم معمولی تنخواہ کے باوجود شاہانہ زندگی بسر کررہاتھا اور کوئی یہ کیسے مان لے کہ محکمہ بے خبر تھا اور اسکے ساتھی اور بالا افسران جو اپنے علاقے میں پتہ ہلنے تک کی خبر رکھتے ہیں اسکے کارناموں سے ناواقف ہوں؟

کیا اس شہر کے باسی اب ڈکیتوں کا بھی احترام کریں کہ نجانے ان میں سے کوئی پولیس اہلکار نہ نکل آئے اور گولی ہی چلادے؟ کیا یہ المیہ نہیں کہ جن علاقوں میں یہ مجرم تعینات رہا اور وارداتیں کرتا رہا اس کے ظلم کے کچھ شکار اس کے پاس ہی اپنی دادرسی کے لئے آتے رہے ہوں گے؟

کیا آپ کو اپنے محکمے میں موجود ان مجرموں کی اسطرح کے کسی سانحے کے رونما ہونے سے پہلے ہی بیخ کنی نہیں کرنی چاہئے؟  کیا ان مجرمان کی فہرست جاری نہیں ہونی چاہیے-

حال ہی میں لندن میں ہونے والے واقعے میں جب میں ایک پولیس افسر نے اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایک خاتون کا جنسی استحصال کیا تو وہاں عوام کے سخت احتجاج کے بعد پولیس نے نئے طریقے وضع کرکے انہیں تسلی دلائی– کیا یہاں بھی ایسا ممکن ہے؟  یا  پاکستان کی مائیں ایک کے بعد ایک اپنے شاہ رخ کھوتی رہیں گی؟

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں