اردو زبان اور ادب سے لگاؤ نے فوزیہ شیخ کو شعر کہنے پر آمادہ کیا تو انھوں نے غزل کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے منتخب کیا- مطالعہ اور مشقِ سخن نے انھیں پختہ گو
شاعرہ بنا دیا اور آج ان کا کلام ملک کے تمام بڑے اخبارات اور معروف ادبی جرائد میں شایع ہوتا ہے-
خوشاب سے تعلق رکھنے والی فوزیہ شیخ نے نظمیں بھی کہی ہیں، لیکن غزل ان کی محبوب صنفِ سخن ہے- پنجاب کے شہر فیصل آباد میں مقیم اس شاعرہ نے ایم اے تک تعلیم حاصل کی ہے- انھیں مختلف ادبی تنظیموں کے تحت منعقدہ مشاعروں میں خاص طور پر مدعو کیا جاتا ہے- فوزیہ شیخ کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے-
غزل
نیند مخمل میں نہ بچھونے میں
خواب مٹی کے اک کھلونے میں
تم نہ آؤ تو فرق ہوتا ہے
دن نکلنے میں، صبح ہونے میں
خوف اندر بھی گھر کے باہر بھی
چھپ کے بیٹھی ہوں ایک کونے میں
بے سبب خواہشوں کی مالا کو
ہاتھ زخمی ہوئے پرونے میں
ابر برسا تو کُھل گیا موسم
آج کتنا سکوں ہے رونے میں
سات رنگوں کا عکس ملتا ہے
میرے اک سانولے سلونے میں
یہ بھی سوچا نہیں جدائی نے
عمر گزری تھی ایک ہونے میں