The news is by your side.

ایک قطرہ ہوں مجھے لمس سے دریا کیجے

جدید شعری منظر نامے پر بالخصوص گزشتہ دہائی میں اکرم جاذب کا نام باذوق اور سخن فہم حلقوں میں ایسے شاعر کے طور پر سامنے آیا جس نے غزل میں جدّت اور روایت کو نہایت خوب صورتی سے ہم آہنگ کیا ہے۔

اکرم جاذب کا تعلق منڈی بہاءُ الدین سے ہے۔ انھوں نے غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور مختلف معتبر ادبی رسائل اور روزناموں میں ان کا کلام شایع ہوتا ہے۔

اکرم جاذب کا پہلا شعری مجموعہ ”امید“ 2017ء میں اشاعت پزیر ہوا اور اگلے ہی سال ”امکان“ کے نام سے ان کے کلام پر مشتمل دوسری کتاب شایع ہوئی اور ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کی۔ یہاں ہم اکرم جاذب کی ایک خوب صورت غزل باذوق قارئین کے مطالعے کے لیے پیش کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

اب نیا اور نہ ہم سے کوئی وعدہ کیجے

وہی پیمان جو باندھے گئے، ایفا کیجے

شبنمی ہاتھ سے کچھ معجزہ ایسا کیجے

ایک قطرہ ہوں مجھے لمس سے دریا کیجے

آپ کے بعد مرا وقت کٹے گا کیسے

مجھ کو اس شہر میں اتنا بھی نہ تنہا کیجے

ان کہی بات کا جو لطف ہے رہنے دیجے

یعنی اظہار میں آنکھوں کو وسیلہ کیجے

دل کی جانب نہ اچھالیں یہ گماں کے کنکر

بے خیالی میں نہ اس جھیل کو گدلا کیجے

کوئی تاوان جو مانگا تو یہ مر جائے گی

بس محبت میں محبت کا تقاضا کیجے

بھیڑ یہ خانۂ دل میں نہیں اچھی لگتی

یہ مکاں جس کا نہیں ہے، اسے چلتا کیجے

ڈال دیتے ہیں مرے پاؤ ں میں زنجیر سی آپ

وقتِ رخصت نہ کبھی شوق سے دیکھا کیجے

آپ کے واسطے دامن میں کوئی پھول تو ہو

صرف ایسے میں بہاروں کی تمنا کیجے

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں