The news is by your side.

سبق پڑھائیں، سکھائیں نہیں!

زبان میں اللہ نے وہ طاقت دی ہے کہ اس سے کسی کی جان بچ سکتی ہے تو کسی کی زندگی جا بھی سکتی ہے ۔ اس بات کا مجھے اس وقت شدت سے احساس ہوا جب چند ماہ قبل سابق اسٹوڈنٹ سے ایک بار پھر رابطہ بحال ہوا ۔

ساتویں کلاس تک وہ اور اسکی بڑی بہن ناچیز سے اسکول ہوم ورک میں معاونت لیتے تھے ۔ بچوں کو پڑھائی میں مدد کرنا میرا مشغلہ ہی نہیں جنون بھی تھا ۔ اور یہی وجہ تھی کہ انکی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ نجی زندگی کے معاملات میں بھی رہنمائی جاری رہی ۔ ساتویں کے بعد علی ( فرضی نام ) نے اچانک پڑھائی چھوڑ دی ۔ بہن سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کا دل نہیں لگتا اور وہ نہیں پڑھنا چاہتا ۔

سمجھا بجھا کر اسے ساتویں سے نویں یا پھر دسویں تک پہنچایا ۔ لیکن اس دوران علی کی شخصیت بدل چکی تھی ۔ اسکی والدہ جب کبھی راستے میں ملتی بیٹے کی کاؤنسلنگ کا کہتی ۔ میں کبھی پیار سے بلا کر کبھی ڈانٹ کر علی کو سمجھاتی لیکن اس بات کا اندازہ نہ ہوا کے وہ تو نشے کا عادی ہوچکا ہے ۔ اسی دوران علی کی والدہ انتقال کرگئی اور بچہ مزید تنہا ہوگیا ۔

نشے کی لت نے علی کو اس قدر جکڑ لیا کہ کئی کوششوں کے باوجود وہ اس سے باہر نہ آسکا ۔ اس کے ساتھ میں کئی  بحالی صحت کے مراکز تک گئی لیکن افاقہ نہ ہوا ۔ والد معاش کی چکی میں پس رہا تھا ۔ علی کی بہن کی شادی ہوچکی  تھی ۔ اور چھوٹی بہن اور وہ تنہا رہ گئے ۔ مرض بڑھتا گیا اور علی کو شہر سے دور ری ہیبلیٹیشن سینٹر علاج کے لئے بھیجا گیا ۔

اس دوران جب علی سے فون پر بات ہوئی تو ایسا محسوس ہوا کہ کوئی گہری کھائی میں دھنسا ہوا ہو اور جہاں سے واپسی کی تمام تر امیدیں دم توڑ چکی ہوں ۔ علی اب سچ بول رہا تھا ۔ جو پہلے یہ کہتا تھا کہ میں نشہ نہیں کرتا یا چھوڑ دوں گا اب وہ کہہ رہا تھا کہ میں نشہ چھوڑ نہیں سکتا ۔ نشے تک رسائی بے حد آسان ہے ۔ اب اس دلدل سے نجات ممکن نہیں ۔

اسکی بات سن کر مجھ میں کچھ کہنے کی ہمت نہ رہی ۔ اسکا ہنستا مسکراتا چہرہ اور تاریک مستقبل آنکھوں میں تھا ۔ میں نے اسے پڑھایا تھا اور استاد کے لئے طالب علم اولاد کی جگہ ہے ۔ میرا دل ڈوب گیا اور مجھ سمیت تمام کردار ذمہ دار ٹھہرے ۔ علی کی حالت پر جب اسکی بہن سے بات کی تو ایک اور کردار مجرم بن کر سامنے آیا ۔ ساتویں جماعت میں اسکول کی اردو کی ٹیچر علی کی شرارتوں سے تنگ ہوں گی ۔ خفگی کے باعث اسے امتحان میں فیل کردیا اور آٹھویں جماعت تک جانے نہ دیا ۔ بچہ اس قدر دلبرداشتہ ہوا کہ ساتویں جماعت دوبارہ پڑھ نہ سکا ۔ اس نے کلاس چھوڑ کر گلی محلے میں گھومنا شروع کیا ، دوست تو اسکول جاتے تھے  ایسے میں ان لوگوں کی صحبت ملی جو عمر میں بڑے تھے اور فعل میں برے ۔

سگریٹ کے ایک کش سے آغاز ہوا اور انجام علی کی تباہ حال زندگی کی صورت میں سامنے ہے ۔ ایک متوسط خاندان ، خوشگوار گھریلو زندگی سے وابستہ بچہ استاد کی ناراضگی کی بھینٹ چھڑ گیا ۔ اور ستم یہ کہ اس نارضگی کے وار کو ماں باپ بہن اور مجھ سمیت کوئی فرد نہ سمجھ پایا ۔

بچے مستقبل کے معمار ہیں یہ جملہ سنتے آرہے ہیں لیکن ان معماروں کی اپنی تعمیر ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری بھی ہے ۔ انجانے میں کئے جانے والے اس نوعیت کے وار ہر بچہ جھیلتا ہوگا لیکن ہر بچہ ایک جیسا نہیں ہوتا کبھی کبھی بڑے بے عزتی کے تیروں سے چھوٹوں کو اس قدر مفلوج کردیتے ہیں کہ ان سے بھلی موت لگتی ہے ۔۔

ہم سب کے لئے یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایک استاد پر بھاری ذمہ داری ہے اسکا کام سبق پڑھانا ہے سبق سکھانا نہیں ۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں