The news is by your side.

بیان نہیں ایک تلخ حقیقت…

اداکارہ صاحبہ کا بیٹیوں سے متعلق بیان آج کل سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔ رمضان شو میں گفتگو کے دوران صاحبہ نے کہا انہیں شوق تھا کہ ان کے بیٹے ہی ہوں اور ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر خدا کے شکرانے بھی ادا کیے تھے کہ خدا نے انہیں بیٹیاں نہیں دیں کیوں کہ بیٹیوں پر ہمیشہ دباؤ ہوتا ہے پہلے والدین کا پھر شوہر کا وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرسکتیں ۔

صاحبہ کے اس بیان پر جہاں ایک جانب بیٹیوں کی پیدائش کی فضیلتیں شئیر ہونا شروع ہوئیں تو دوسری جانب صاحبہ کی سوچ پر کڑی تنقید بھی کی گئی ۔ منفی کمنٹس پر بیٹے زین کو میدان میں آنا پڑا انسٹا پر والدہ کی حمایت میں لکھا کہ والدہ نے اپنی خواہش کی بات کی تھی، جس پر لوگوں نے بات کا پتنگڑ بناتے ہوئے ان کے لیے سخت زبان کا استعمال کیا۔ وہ اس بات پر حیران رہ گئے کہ جس خاتون نے شوبز کو بیس سال دیے اور انہوں نے کام کے دوران عزت کو ترجیح دی، ان کی ایک بات پر لوگوں نے ان کے خلاف سخت زبان استعمال کی۔

ممکن ہے کہ ان کی والدہ نے غلط الفاظ کا انتخاب کیا ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کوئی ان کی بات کو غلط انداز میں لے کر ان کے لیے سخت زبان استعمال کرے۔ لوگوں کے منفی کمنٹس نے نہ صرف ان کی والدہ بلکہ ان کے تمام اہل خانہ کو متاثر کیا اور لوگوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ ان کا ایک منفی جملہ بھی دوسروں کی ذہنی صحت کو تباہ کر سکتا ہے ۔ صاحبہ کے بیان پر لوگوں کے تجزیئے تبصرے ، تنقید اور بیٹے کی وضاحتیں یہ سب تو بجا ہے لیکن کیا اس تلخ حقیقت سے آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں ۔ صاحبہ نے تو گفتگو میں اس زمانے کی بات کی یعنی ماضی۔ لیکن کیا حال اس سے مختلف ہے ۔ کیا دباؤ کا صرف تاثر ہے حقیقت نہیں ۔ کیا اخلاقیات برداشت صبر کی نصیحت صرف بیٹیوں کے لئے نہیں ۔ بیٹی سے بیوی بنے تو بھی صورت حال کچھ تبدیل نہیں ۔ شوہر غصہ کرے تو بیوی کو برداشت کرنا ہی پڑے گا ، رشتہ بچانا ہے تو سمجھوتہ کرنا ہی پڑے گا ۔ کہیں آنے جانے سے معمولی فیصلے سے لے کر زندگی کے بڑے فیصلوں تک کا سفر بھی کٹھن ٹھہرا ، اعتماد کے کئی مراحل سے تو گزرنا ہی پڑے گا ۔ معاشرے میں ” پڑے گا ” نامی اس عہد نامے پر کچھ اس طرح زور دیا جاتا ہے کہ گویا بیٹیوں نے پیدائش کے ساتھ ہی انگوٹھا لگا دیا ہو ۔ اور اگر غلطی سے خاتون دماغ کا استعمال کرتے ہوئے کوئی فیصلہ لے لیں تو ازلی عہد کی جیسے پامالی ہوجاتی ہے پھر وہ سرکش اور باغی تک کہلائی جاسکتی ہے ۔

غور طلب بات یہ ہے کہ صاحبہ کے بیان پر تنقید تبصرے کرنے والے بھڑکتے جذبات کو پس پشت ڈال کر اگر بیان میں پوشیدہ وجہ پر ہی غور کرتے تو مجموعی طور پر معاشرے میں پھیلے ایک اہم مسئلے پر سیر حاصل گفتگو ممکن تھی شاید عہد نامے کی طوق سے آزادی بھی ممکن تھی ۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں