The news is by your side.

بے بسی (فوزیہ شیخ کی شاعری)

“بے بسی”

سرمئی شام کی وحشتوں کو لیے
کوئی گھر سے چلا
صبحِ ضوریز کی چشمِ نمناک سے اٹھ رہا تھا دھواں
ایک قصّہ سناتا ہوا
رنج اٹھاتا ہوا قافلہ
تیری منزل الگ، میرا رستہ الگ
گرد اوڑھے ہوئے
کوئی چلتا رہا۔۔۔

صبح اور شام کا کیسے ہوتا ملن
پیڑ چھاؤں سے خود ہی الجھنے لگے
اور پنچھی سبھی گھونسلے چھوڑ کر
دائمی ہجرتوں کے حوالے ہوئے
ہجر آنکھوں میں جب ہو سمایا ہوا
نیند کو راستہ کب میسّر ہوا؟

خواب بھی در بدر اب بھٹکنے لگے
آہ بھرنے لگے
رات ڈھلنے لگی، چاند جلنے لگا
چپ فلک پر کوئی دیکھتا رہ گیا
کوئی کاندھا تلک نہ میسّر ہوا
بے بسی سے مری سانس رکنے لگی
کوئی بچھڑا ہوا یاد آنے لگا

شاعرہ: فوزیہ شیخ

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں