اردو میں رومانوی شاعری تخیّل کے حُسن اور اپنے اظہار کی بے تکلّفی کی صورت میں نہایت دل گداز اور لطیف معلوم ہوتی ہے۔ بالخصوص شاعرات نے اپنے کلام میں محبوب سے متعلق جذبات اور احساسات کو نہایت خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔ فوزیہ شیخ کی یہ غزل ان کیفیات کے اظہار کا ایک نمونہ ہے جو خانۂ دل میں برپا ہیں۔ اس غزل کے اشعار شدّتِ احساس کے ساتھ تخیل کی لطافت اور نزاکت سے آراستہ ہیں جن میں رشتے یا تعلق کو نبھانے کی باتیں، شکایت، قربت اور گریز، خوشی اور غم کی کیفیات، خواہش، آرزو کا اظہار اور محبوب کے ساتھ ایک حسین اور نئے جہان کی تعمیر کا خواب بُنا گیا ہے۔
فوزیہ شیخ کی غزل ملاحظہ ہو۔
کئی دنوں سے گریز پا ہے یا رابطے میں اگر نہیں ہے
اداس وہ بھی ضرور ہوگا مجھے بھی اپنی خبر نہیں ہے
میں خالی دامن بھی ساتھ اس کے امیر خود کو سمجھ رہی تھی
مری ضرورت نہیں ہے دنیا، مری طلب مال و زر نہیں ہے
اسے بلاؤ کہ پاس بیٹھے ذرا سا ماتھے پہ ہاتھ رکھ کر
جو اس کے چھونے میں ہے شفا وہ کسی دوا میں اثر نہیں ہے
کسی کے جانے سے میری دنیا کی سب بہاریں اجڑ گئی ہیں
کہاں کہاں پر نہیں ہیں کانٹے، کہاں پہ رستہ بھنور نہیں ہے
ہماری آنکھوں کے پھیلے اشکوں میں ٹوٹے خوابوں کی داستانیں
ہماری قسمت سفر ہے جس میں کوئی بھی منزل یا گھر نہیں ہے
ہمارا ایمان ہے محبّت، شدید مشرک ہیں اس کی آنکھیں
نجانے کس بُت پہ مَر رہی ہیں، ہمارے رخ پہ نظر نہیں ہے