ایمان قیصرانی کی شاعری میں درد مندی، سوز و گداز اور احساس کی شدّت کی نمایاں ہے، اور اس وصف کے ساتھ وہ اپنے خیالات کو نہایت دل نشیں انداز میں پیش کرتی ہیں۔ شاعرہ کے دو مجموعۂ کلام منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ یہاں ہم ایمان قیصرانی کی خوب صورت غزل آپ کی نذر کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔
اسیرِ ہجر کی آب و ہوا بدلنے کو
کبھی خوشی بھی ملے ذائقہ بدلنے کو
میں جس کے نقشِ قدم چومنے کو نکلی تھی
اُسی نے مجھ سے کہا راستہ بدلنے کو
ہزار زخم سہے اور پھر یہی سوچا
چلو اک اور سہی تجربہ بدلنے کو
گر اس کا ساتھ ملے تو ستارے مل جائیں
وہ ناگزیر ہوا زائچہ بدلنے کو
ملے ہیں ہم کبھی پھر سے جدا نہ ہونے کو
چلو یہ فرض کریں مسئلہ بدلنے کو
یہاں پہ خود کو بدلنا ہے، گر بدلنا ہے
سو تم سے کس نے کہا ہے خدا بدلنے کو
وہ خود تو کھو چکا دنیا کی بھیڑ میں ایماں
مجھے بھی کہہ گیا اپنا پتہ بدلنے کو