بڑھ کے طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی
ڈوبنے والے ترے ہاتھ سے ساحل تو گیا
گزشتہ کئی دنوں سے ہم “عدم اعتماد” کی تلاش میں تھے، مگر اس نام یا تخلّص کے حامل شاعر کا سراغ لگانے میں ناکام رہے۔ مندرجہ بالا شعر ہم نے نجانے کب پڑھا تھا اور اس کا بھی بس مفہوم ہی ذہن میں رہ گیا تھا، البتہ شاعر عدمؔ تھے، یہ ہمیں خوب یاد رہا۔
اب جب ملک کی سیاست میں “عدم اعتماد” کا شور ہوا تو ہمیں وہ شعر اور شاعر یاد آگئے۔ خیال گزرا کہ اس شاعر کا نام بھی عدم اعتماد تھا۔ ہم نے یاروں دلداروں سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے بڑے یقین سے کہا کہ ایسا کوئی پاکستانی شاعر نہیں جس کا نام یا تخلّص عدم اعتماد ہو۔ البتہ عبدالحمید ایک مشہور شاعر تھے جن کا تخلّص عدمؔ تھا۔ ان کی اس وضاحت کے باوجود ہمارا ذہن “عدم اعتماد” میں اٹکا رہا۔
ہم اپنے اردو ادب کے استاد سے ملے اور اس بارے میں دریافت کیا۔ انھوں نے ہمیں گھور کر دیکھا اور بولے، نہیں بھائی، عدم اعتماد کوئی نہیں، عبدالحمید عدمؔ تھے جو اپنے دور کے ایک مقبول شاعر تھے۔ یہ سن کر ہمیں بڑی مایوسی ہوئی۔ آخری کوشش کے طور پر ہم نے ادبی تذکروں پر مشتمل کتابوں کے اوراق الٹ دیے۔ پھر انٹرنیٹ کا سہارا بھی لیا، مگر وہاں سے بھی یہی جواب ملا کہ آپ اپنا وقت برباد کررہے ہیں، پاکستان میں کسی عام آدمی یا شاعر کا نام “عدم اعتماد” نہیں ہے۔ اور تب ہم نے اپنی کوششوں سے دست بردار ہوتے ہوئے عدمؔ پر اکتفا کر لیا جن کی شاعری پڑھتے ہوئے وہ شعر بھی نکل آیا جو ہم نے اس تحریر کی پیشانی پر درج کیا ہے۔
عبدُالحمید عدمؔ کے حالاتِ زندگی پڑھتے ہوئے ان کی غزلیں اور کئی اشعار بھی نظر سے گزرے۔ ان میں سے چند اشعار ہم خاص طور پر آپ کے لیے یہاں نقل کر رہے ہیں۔ یہ تمام وہ اشعار ہیں جو ہماری سمجھ میں بالکل نہیں آئے اور ہم ان کی تشریح کرنے سے قاصر ہیں۔
عبدالحمید عدمؔ اس شعر میں کیا کہنا چاہتے ہیں؟
اے عدمؔ شہر کے عمائد کو
ورغلا کر عوام میں لاؤ
ان کی ایک غزل کا یہ شعر بھی ہمیں اچھا لگا۔
کچھ ہم پہ دوستوں نے بھی احساں کیا عدمؔ
کچھ ہم بھی دوستوں پہ عنایات کر چلے
معلوم نہیں کن کرتوتوں اور کس بدنامی کا ذکر کیا جارہا ہے ۔
ہم تو بدنام ہیں عدمؔ یونہی
لوگ دنیا میں کیا نہیں کرتے
عدمؔ کا اعتماد اور حوصلہ دیکھیے۔
دل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں
دوستوں کی مہربانی چاہیے
یہ شعر ملاحظہ ہو!
کون انگڑائی لے رہا ہے عدمؔ
دو جہاں لڑکھڑائے جاتے ہیں
اس شعر میں شاعر نے اپنے محبوب سے شکوہ اور شاید اپنے عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے۔
یہ کیا کہ تم نے جفا سے بھی ہاتھ کھینچ لیا
مری وفاؤں کا کچھ تو صلہ دیا ہوتا
پھر وہ وقت آیا جب تلخیٔ حیات اور مسلسل افتاد نے عدمؔ کو توڑ کر رکھ دیا اور تب شاعر نے اپنی ہستیٔ ناپائیدار کا اعتراف کیا۔
ہم کو یوں بھی تباہ ہونا تھا
آپ کیوں شرمسار ہوتے ہیں
اب ہم یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں عدم اعتماد کے نام سے تو کوئی شاعر نہیں ملا، لیکن حضرتِِ عدم کے یہ اشعار جوآپ نے پڑھے، ان شعروں نے آپ کو اپنی قرأت پر عدم اعتماد کا شکار تو نہیں کردیا؟ جب ہم شعر پڑھتے ہیں یا سنتے ہیں تو ذہن اس کا کوئی فوری مفہوم اور موزوں معنیٰ اچھال دیتا ہے، اور ہم واہ وا کرنے لگتے ہیں۔ کبھی شعر کو محبوب کے حسن، کبھی اس کی بے رُخی، کبھی وصال، کبھی ہجر اور دل کے درد سے جوڑ دیتے ہیں۔ اور ہاں، کچھ اشعار ہمیں اپنے ارد گرد یا شہر یا ملک کے حالات کی طرف تو بھی راغب کر دیتے ہیں!
تو کیا آپ اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ ان اشعار کو پڑھ کر آپ کے دل میں ملک بھر میں مچے سیاسی ہنگامے سے متعلق گدگدی نہیں ہو رہی؟ چلیے، حضرتِ عدم کے یہ اشعار دوبارہ پڑھیے، اور سوچیے کہ وفاقی حکومت کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا اکٹھ اور تحریکِ عدم اعتماد کیا رنگ لائے گی۔
ankara escort
çankaya escort
eryaman escort
etlik escort
ankara ucuz escort
balgat escort
beşevler escort
çankaya escort
cebeci escort
çukurambar escort
demetevler escort
dikmen escort
eryaman escort
esat escort
etimesgut escort
etlik escort
gaziosmanpaşa escort
keçiören escort
kızılay escort
maltepe escort
mamak escort
otele gelen escort
rus escort
sincan escort
tunalı escort
türbanlı escort
ulus escort
yenimahalle escort