The news is by your side.

احسن اقبال صاحب’ ہماری چائے کافی ہے…’

بہ قدرِ تشنگی ہر رند سرگرمِ تلافی ہے
مگر ساقی کے مستوں کو ہماری چائے کافی ہے

سچ تو یہ ہے کہ کئی برس کے دوران عرق ریزی سے کی گئی تحقیق کے ماحصل جمیع حقائق اور معلومات کی بنیاد پر کیے گئے انکشافات کے باوجود چائے ہی نہیں‌ دودھ کی افادیت اور نقصانات کی گتھی سلجھی نہیں ہے۔ سائنس داں آج بھی دودھ میں‌ غوطے اور چائے میں‌ ڈبکیاں لگا رہے ہیں اور ہنوز یہ مشروبات ان محققین پر بہ اعتبارِ مقدار اپنے افادی یا غیر افادی ہونا ثابت نہیں‌ کرسکے ہیں۔

ہمارا موضوع تو چائے ہے اور اس کا سبب احسن اقبال کا وہ بیان جس پر پاکستانی عوام شدید غم و غصّے کا اظہار کررہے ہیں‌۔ ہمیں لگتا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت سوشل میڈیا پر وفاقی وزیر کو ان کے بیان پر آڑے ہاتھوں‌ لینے کے بعد خاص طور پر آج ہوٹلوں‌ اور چائے کے ڈھابوں‌ کا رخ کرے گی اور وہاں احتجاجاً قدح پر قدح سڑپے جائیں‌ گے۔

اگر آپ پچپن سال کے ہیں‌ تو ذہن پر ذرا زیادہ زور ڈال کر آپ کو بچپن کا وہ کھیل یاد کرنا ہو گا جس میں ایک مختصر سی نظم کی بڑی اہمیت تھی لیکن اگر آپ ہمارے نوجوان قاری ہیں‌ تو شاید آج کے ہر بچّے کی طرح ذہن پر زور ڈال کر بھی ایسی کوئی یاد بازیافت نہ کرسکیں‌ اور پب جی کے سوا آپ کو کچھ نہ سوجھے۔ نظم پیشِ خدمت ہے:

چائے کی پیالی پوشم پوش
بنگلے کا تالا ٹوٹ گیا
سو روپے کی گھڑی چرائی
اب تو ڈاکو پکڑا گیا…

اگر کوئی قوم کسی بحران اور مشکل میں‌ اپنا طرزِ‌ زندگی بدلتے ہوئے غیر ضروری یا اضافی اخراجات کو گھٹانے پر آمادہ ہوجائے تو حکومت کو معیشت میں‌ بہتری لانے میں خاصی مدد مل سکتی ہے، لیکن پاکستان جیسے ملک میں عوام تو دور کی بات خود مالی بحران اور اس کے نتیجے میں اپنی ہی حکومت پر تنقید اور ہر قسم کے دباؤ کا سامنا کرنے والے حکم ران بھی اپنے شاہانہ اخراجات کو کم کرنے کے لیے تیّار نہیں‌ ہوتے۔ آج وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ جو چائے ہم درآمد کرتے ہیں، اس کے لیے ادھار لینا پڑتا ہے، عوام ایک ایک، دو دو پیالیاں کم کر دیں، ملکی معیشت مشکل میں‌ ہے۔ ان کا یہ کہنا غضب ہوگیا۔ مشورہ یا ان کی یہ اپیل کسی کو ایک “کپ” نہ بھائی۔ ان کے اس مشورے نے گویا چائے کی پیالی میں‌ طوفان برپا کر دیا اور سوشل میڈیا پر صارفین نے انھیں آڑے ہاتھوں‌ لیا۔

ن لیگ اور حکومت مخالف ایک طرف ملک کے کونے کونے میں‌ موجود چائے کے رسیا پھٹ پڑے۔ کسی نے دفاعی بجٹ تو کسی نے ججز کی تنخواہوں میں اضافے کی طرف توجہ دلائی اور اسی کے ساتھ حکم رانوں اور وفاقی و صوبائی کابینہ کے اراکین کو ان کی مراعات اور پروٹوکول پر ہونے والے اخراجات کو گھٹانے کا مشورہ دے دیا۔

یہ شعر ایک شاعر نے بہت پہلے کہا تھا:
دو کے بجائے چائے بنائی ہے ایک کپ
افسوس آج تُو بھی فراموش ہو گیا

شاعر نے یہ قدم کیوں اٹھایا تھا یہ تو ہمیں‌ معلوم نہیں، لیکن ہم سوچ رہے ہیں‌ کہ اس ملک کے عاشق وغیرہ معاشی حالات کو بہتر بنانے کی فکر میں‌ گھلتے اپنے وزیر کی بات پر ‘دو کے بجائے ایک کپ چائے’ بنا کر اپنے محبوب کو ناراض کرنے کی جرأت کرسکتے ہیں؟

یہ درست ہے کہ پاکستان چائے درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے اور چائے وہ مشروب ہے جسے گھر آئے مہمانوں کی تواضع سے لے کر رات گئے تک ہوٹلوں پر محفل جمانے والے ہر طبقے اور عمر کے لوگ بقدرِ ذوق حلق میں انڈیلتے رہتے ہیں۔

چائے پاکستانیوں کا پسندیدہ مشروب ہو نہ ہو، لیکن اکثر لوگوں کو ہم نے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ یار، چائے پینا ہے، سَر میں‌ بہت درد ہو رہا ہے، یا کام نہیں‌ ہو رہا، چلو چائے پی کر آتے ہیں۔ بعض واقعی اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ گھنٹے دو گھنٹے بعد چائے نہ ملے تو ان سے کام ہی نہیں ہوتا۔ محمد عثمان جامعی کے یہ اشعار لوگوں کو بَلا نوشی کا جواز فراہم کرتے ہیں:

آج کی شام کیسے گزرے گی
نہ اسے دیکھا، نہ ملی چائے

چائے خانے رہیں سدا آباد
چائے رونق ہے، زندگی چائے

پاکستان کے ادارۂ شماریات کی ایک رپورٹ میں‌ بتایا گیا تھاکہ سالانہ 60 سے 70 میٹرک ٹن چائے پاکستان کے لیے درآمد کی جاتی ہے۔ ماہرینِ معاشیات کے مطابق حکومت ہر سال اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصّہ چائے درآمد کرنے پر خرچ کردیتی ہے۔

ہمیں ایک اور شعر یاد آیا جس سے چائے کی اہمیت اور افادیت آپ پر خوب واضح ہو جائے گی۔

ہر درد کی دوا ہے، ہر مرض سے بچائے
وہ صف شکن بنیں‌ گے، پیتے رہے جو چائے

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں