’آخری چند دن دسمبر کے‘‘ امجد اسلام امجد کی مقبول نظموں میں سے ایک ہے۔ اپنی اس نظم کا حوالہ انھوں نے نیا سال، نیا کیسے ہو؟ کے عنوان سے تحریر کردہ اپنے کالم میں دیا جو یکم جنوری کو شایع ہوا تھا۔ آج امجد اسلام امجد یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔ جہانِ علم و ادب میں فضا سوگوار ہے ۔ایسے میں آج جب ان عنوانات پر نظر پڑی تو ایک عجیب احساس نے جنم لیا۔
خیال آیا کہ انھوں نے دسمبر کے آخری چند دن کیسے گزارے ہوں گے۔ کوئی نیا خیال، کوئی مصرع ان کے جذبات اور احساسات کے ریشمی دھاگوں میں لپٹا رہا ہوگا۔ شاید کوئی نظم ان کے تخیل کی گرفت میں رہی ہوگی۔ پھر خیال آیا کہ کیا ان کا یوں داغِ مفارقت دے جانا ہی اس سال کا نیا پن ہے؟
امجد اسلام امجد غزل اور نظم پر یکساں عبور رکھتے تھے۔ وہ بالخصوص نوجوان نسل کے اُن مقبول شعرا میں سے تھے جنھیں پاکستان اور بیرونِ ملک بھی پذیرائی ملی اور انھیں خاص طور پر مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا۔ ان کی نظم کے چند بند ملاحظہ کیجیے جس کا عنوان ہے آخری چند دن دسمبر کے۔
ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری، دوست دیکھتے ہوں گے
ان کی آنکھوں کے خاک دانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے
نام میرا بھی
کٹ گیا ہوگا
رنگ بالآخر روشنی میں کھو گیا، لیکن شاعر اور ڈرامہ نگار کے طور پر منفرد شںاخت بنانے والے امجد اسلام امجد کا نام نہ تو مٹے گا، نہ کاٹا جائے گا۔ انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کا تذکرہ ان کی خوش مزاجی، زندہ دلی اور ان کی تخلیقات کے سبب ادب کی دنیا میں، ان کے مداحوں اور چاہنے والوں کی محفل میں ہمیشہ ہوتا رہے گا۔
امجد اسلام امجد 4 اگست 1944 کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے انھوں نے 1967 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا، وہ پنجاب یونیورسٹی کے میگزین محور کے ایڈیٹر بھی رہے۔ وہ کئی سال ایم اے او کالج لاہور کے شعبۂ اردو میں استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اگست 1975 میں امجد اسلام امجد کو پنجاب آرٹ کونسل کا ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تھا۔ بعدازاں وہ دوبارہ ایم اے او کالج آ گئے اور تدریس میں مشغول ہوگئے۔
امجد اسلام امجد نے شاعر، ڈرامہ نگار اور نقاد کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ ان کی شاعری ہر خاص و عام میں مقبول ہوئی۔ بالخصوص نظم کے میدان میں انھوں نے قارئین کی توجہ حاصل کی۔ امجد اسلام امجد کی کلیات ‘ہم اس کے ہیں‘ کے عنوان سے شائع ہو چکی ہے۔ ان کا مجموعۂ کلام برزخ اور جدید عربی نظموں کے تراجم عکس کے نام سے شائع ہوئے تھے۔ امجد اسلام امجد نے افریقی شعرا کی نظموں کا ترجمہ ‘کالے لوگوں کی روشن نظمیں‘ کے عنوان سے کیا تھا۔ ان کی بیس سے زائد کتب شایع ہوچکی ہیں جن میں شعری مجموعے، سفر نامے، تراجم اور ڈرامائی تشکیل پر مبنی کتب شامل ہیں۔ ان کے سفر نامے بھی قارئین میں بے حد پسند کیے گئے۔
نام ور شاعر اور ادیب امجد اسلام امجد کی ملک گیر شہرت کا سبب ان کی ڈرامہ نگاری تھی۔ بحیثیت ڈرامہ نگار وہ ہر گھر میں پہچانے گئے اور ہر عمر و طبقہ ہائے حیات نے انھیں احترام دیا اور ان کی پذیرائی کی۔
1980ء میں وارث جیسا شہرۂ آفاق ڈرامہ انھوں نے پی ٹی وی کے لیے تخلیق کیا تھا جس نے تقسیمِ ہند سے پہلے اور تقسیم کے بعد پاکستان میں آنکھ کھولنے والی نئی نسل کو متأثر کیا اور ان کی پہچان بنا۔ امجد اسلام امجد نے 1980 اور 1990 کی دہائی میں پاکستانی ٹیلی ویژن کے لیے متعدد ایسے ڈرامے تحریر کیے جنھوں نے مقبولیت کا ریکارڈ بنایا۔ ان میں دہلیز، سمندر، دن، فشار اور دیگر ڈرامہ سیریل شامل ہیں۔
ایک شاعر، ڈرامہ نگار اور نقّاد کی حیثیت سے امجد اسلام امجد کا تخلیقی سفر کئی دہائیوں پر محیط رہا۔ ان کے اخباری کالم بھی قارئین میں مقبول تھے جس میں علمی و ادبی سرگرمیوں اور موضوعات کے علاوہ سیاست، تاریخ، یاد نگاری اور کتب و رسائل پر تبصرے شامل ہوتے تھے۔ امجد اسلام امجد کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے 1987 میں صدارتی تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا، 1998 میں انھیں ستارۂ امتیاز دیا گیا۔
بلاشبہ امجد اسلام امجد کے انتقال سے ہم ایک ایسے خوب صورت اور منفرد تخلیق کار سے محروم ہوگئے ہیں جس نے اپنے قلم کے زور پرخود کو روایتوں کا وارث ثابت کیا۔