غزل
جو ہے نہیں وہ محبت جتاتا رہتا ہے
سو دور بھیج کے واپس بلاتا رہتا ہے
وہ آزمودہ بہت نسخے پاس ہوتے ہوئے
کئی نئے نئے گُر آزماتا رہتا ہے
وہ بات شیشۂ دل میں دراڑ جس سے پڑی
اسی کے پھر سے کرشمے دکھاتا رہتا ہے
میں اپنے رنگ میںBetmoon Giriş
رنگنے میں محو رہتی ہوں
وہ اپنے ڈھنگ سے دنیا کماتا رہتا ہے
اسے تراشBetmoon
لیا ہے مری محبت نے
جو سنگ ریزوں سے ہیرے بناتا رہتا ہے
وہ عنبرین ؔمجھے جاں سے پیارا ہو گیا ہے
سو زخم اب بہ سہولت لگاتا رہتا ہے
شاعرہ: عنبرین خان