The news is by your side.

نتھيا گلی: سفر خوب صورت ہے منزل سے بھی…

زندگی کے کچھ سفر ايسے ہوتے ہيں جو اہم ہونے کے باوجود آپ کو زيادہ تياری کا موقع نہيں ديتے، ليکن اچانک بننے والے پلان ہی زيادہ ياديں سميٹتے ہيں۔ ميرا، ميرے بہترين دوست اور ہم سفر کے ساتھ پہلا سفر بھی کچھ ايسا ہی رہا۔ بيرونِ ملک جانے کی منصوبہ بندی سے اچانک بننے والے اندرونِ ملک سفر کے لیے ہم دونوں ہی ذہنی طور پر زيادہ تيار تھے، نہ ہی پُرجوش۔ جلد بازی ميں جب کچھ نہ سوجھا تو نظرِ انتخاب گليات کا مقام نتھيا گلی ٹھہرا۔

يوں تو کئی مرتبہ ہم دونوں کا ہی اس مقام سے گزر رہا، ليکن کبھی ٹھہرنے کا پروگرام نہ بنا۔ دوستوں کے مشوروں نے جلتی پر تيل کا کام کيا۔ بھلا نتھيا گلی بھي کوئی تين چار روز ٹھہرنے کی جگہ ہے ۔ ديکھنے کے لیے رکھا کيا ہے۔ اسی قسم کے چند خيالات اور سردی سے بچاؤ کے مختصر سامان کے ساتھ ہم نتھيا گلی پہنچے تو وہاں دنيا ہی اور تھی۔

مارچ میں بن موسم کی بھرپور برفباری نے نظاروں کو کوہ قاف جیسا رومانوی بنا دیا تھا۔ سونے پر سہاگا سیاحتی سیزن آف ہونے کے باعث سڑکیں ویران تھیں۔ اس بہترین آغاز کے ساتھ ہوٹل دیکھ کر تو دل باغ باغ ہوگیا۔ بازار سے دو کلو میٹر دور مین روڈ پر واقع ایک ہوٹل ہمیں لوکیشن کے لحاظ سے نہایت پسند آیا۔اس کے ٹاپ فلور پر ریستوران میں کھانا کھاتے ہوئے دور برف سے ڈھکے پہاڑ نہایت حسین لگتے ہیں۔ ہوٹل کے ایگزیکیٹیو کمرے سے لابی ایک فلور اوپر تھی۔ کھڑکی سے نیچے جھانکیں تو پورچ میں ہوٹل کے مکینوں کی چہل پہل نے دل لبھایا اور سامنے پہاڑ اور بادلوں کی خوش کن گفتگو نے اللہ کی نعمتوں کا شکر بجا لانے کی توفیق دی ، ہوٹل اور گاؤں صنوبر (پائن) کے اونچے اونچے درختوں سے ڈھکا ہوا نظر آتا ہے۔ گاؤں والوں کے مطابق انہی درختوں کی لکڑی سردی اور کھانا بنانے سمیت مختلف کاموں کے لیے ایندھن کی ضرورت پوری کرتی ہے۔ انتظامیہ سے ایک درخت پچیس ہزار روپے کا ملتا ہے جس سے ایک گھر چار پانچ مہینے تک اپنی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔

ہوٹل کی سیر اور دل چسپ معلومات ہمارے ٹرپ کا ایک بڑا حصّہ رہی۔ اسی طرح ہوٹل سے باہر کی دنیا سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ ہوٹل سے کچھ فاصلے پر گورنر خیبر پختون خوا کا گھر ہے۔ راستے پر دونوں طرف برف سے ڈھکی بل کھاتی سڑک سے گزرنا ایسا تھا جیسے کرانیکلز آف نارنیا فلم کا برفیلا سیٹ ہو۔ روئی کے گالوں سے محسوس ہوتے بادل، ہلکی سفیدی میں جھومتے درخت اور چاروں جانب گھیرا کیے پہاڑوں کے درمیان کئی کلومیٹر کی سیر نے کئی سال تک یادوں سے بہلنے کا سامان کیا۔

تیسرے روز زپ لائن کے تجربے کا شوق ہوا، لیکن آف سیزن کے باعث اسے بند پایا، اس کے باوجود پارک کی سیر یادگار رہی۔ کچرا جگہ جگہ بکھرا ہوا تھا، پھر کیا تھا، شاپر لے کر میں اور میاں جی دونوں کام میں جٹ گئے۔ کچرا صاف کیا تو وہاں موجود چند افراد نے حیرانی سے پوچھا بھلا آپ دونوں اس کچرے کا کریں گے کیا۔ جواب آسان تھا، جناب کچھ نہیں آپ آرام سے سیلفی لیں سکیں بس اس لیے کچرا صاف کر رہے ہیں۔ پارک کی سیر کے بعد سیڑھیوں سے بازار کا رخ کرنے کے ارادہ نے تو قہقہوں کا طوفان اٹھا دیا۔ برف میں چھپی سیڑھیوں پر پھسلتے، لوٹتے پوٹتے مشکل سے میں منزل تک پہنچی اور ہمراہی اسے کیمرے میں ریکارڈ کرتے رہے۔ ہنستے مسکراتے نئی زندگی کے آغاز کا یہ سفر اس سوچ پر تمام ہوا کہ

وہ کیا منزل جہاں سے راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر اک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں