اردو زبان اور شاعری سے لگاؤ رکھنے والی فوزیہ شیخ نے جب خود کو موزوں طبع پایا اور اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا تو غزل جیسی مقبول صنفِ سخن ان کی توجہ کا مرکز بنی اور اسے اپنے خیالات کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ شاعرہ نے نظمیں بھی کہی ہیں، لیکن ان غزل ان کی محبوب صنفِ سخن ہے۔ فوزیہ شیخ کی ایک تخلیق باذوق قارئین کی نذر ہے-
غزل
دیتی نہیں ہوں اس لیے کمتر کے ہاتھ میں
آجائے نہ یہ خط کسی مخبر کے ہاتھ میں
کیا کھول کر کروں گی میں کشتی کے بادباں
موجِ ہوا کا رخ ہے سمندر کے ہاتھ میں
پوشاکِ زندگی تجھے سیتے سنوارتے
سو چھید ہو گئے ہیں رفو گر کے ہاتھ میں
کہتے ہو پھر کہ بیٹی کی قسمت خراب ہے
ہیرا تو خود تھما دیا پتّھر کے ہاتھ میں
ہوتی ہے دال بھی من و سلویٰ سے بہترین
محنت کے آبلے ہوں جو شوہر کے ہاتھ میں
کانٹوں کے خوف سے رہی خوشبو سے بے نیاز
حالانکہ پھول تھے یہاں اکثر کے ہاتھ میں
تالے پہ آپ اندھا بھروسہ نہ کیجیے
ہوتی ہیں گھر کی عزتیں بھی در کے ہاتھ میں