The news is by your side.

کیا عمران خان کے کامیاب جلسے کسی کی آنکھوں‌ میں کھٹک رہے ہیں؟

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے بعد وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑنا پڑا اور وہ خاموشی سے وزیراعظم ہاؤس سے خود گاڑی چلا کر بنی گالا روانہ ہوگئے۔

اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار کے خاتمے کے بعد عمران خان نے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ملک کے بڑے شہروں میں احتجاجی جلسے کرنے کا اعلان کردیا تحریک انصاف نے عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے سب سے پہلے شہر پشاور کا انتخاب کیا اور گزشتہ ہفتے کراچی میں ایک بڑا جلسہ کیا گیا جس میں عوام کے ساتھ شوبز کی مشہور و معروف شخصیات نے بھی شرکت کی۔

عمران خان ان دونوں جلسوں میں عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب نظر آتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کو زبردستی ختم کیا گیا ہے اور عوام میں عمران خان کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری جانب نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادی ابھی تک وفاقی کابینہ تشکیل نہیں دے سکے ہیں اور آج پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے فوری الیکشن کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔

موجودہ صورتحال اور سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو اس وقت جہاں عمران خان عوام کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں، وہیں تحریک انصاف اور اداروں کے درمیان تناؤ کی فضا بھی نظر آرہی ہے، اگر ملک میں صاف شفّاف طریقے سے عام انتخابات ہوجاتے ہیں تو امکان ہے کہ تحریک انصاف پھر سے برسر اقتدار ہوگی لیکن اگر دھاندلی ہوئی تو تحریک انصاف کا کامیاب ہونا مشکل ہوگا۔

2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف کی کامیابی کو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مسترد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عمران خان اقتدار کے ایوان میں لایا گیا ہے اور سیاسی مخالفین نے ان کی حکومت کو ’سیلکٹڈ‘ کہا تھا۔

ملک کی سیاسی تاریخ میں جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے اور مختلف ادوار میں منتخب وزیر اعظم کو اقتدار سے الگ کرنے کے بعد فوجی حکمرانوں نے جب بھی اقتدار سنبھالا، عوام کو بلدیاتی نظام کے ذریعے بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن بناتے ہوئے ان سے جلد انتخابات کروانے کا وعدہ بھی کیا، لیکن پھر ملک میں جمہوریت کی بحالی میں تاخیر ہوتی چلی گئی اور سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کو خود ساختہ جلاوطنی اور کارکنوں کو قید و بند کی صعوبتیں‌ جھیلنا پڑیں۔ موجودہ حکومت بننے سے قبل ملک میں ایک بار پھر آئینی بحران پیدا ہونے اور اداروں کے مابین تصادم کی باتیں ہورہی تھیں جو اب دم توڑ چکی ہیں۔

عمران خان کو اپنی پارٹی کی مضبوطی اور عوام میں‌ اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ احتجاجی جلسے ضرور منعقد کریں، لیکن پارلیمنٹ میں سیاسی بصیرت سے اپنی مخالف اتحادی جماعتوں کا مقابلہ کریں اور اپوزیشن کا کردار بھرپور طریقے سے نبھائیں۔ آئین کی پاس داری، جمہوری راویات اور پارلیمنٹ کا احترام ان کی پارٹی کو مضبوط بنائے گا اور یہ ان کی سیاسی بقا کے لیے لازم ہے۔

عام انتخابات میں اگر تحریک انصاف جیت جاتی ہے اور عمران خان وزیراعظم بنتے ہیں تو وہ اسی صورت میں اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرسکیں گے جب وہ دو تہائی اکثریت سے ایوان میں پہنچیں گے، ورنہ ہوا کا رخ بدلتا دیکھ کر اتحادی جماعتیں اس وقت بھی ان کا ساتھ چھوڑ سکتی ہیں جس کی حالیہ مثال ایم کیو ایم اور باپ پارٹی ہیں جنہوں نے عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور اپوزیشن کے کیمپ میں‌ چلی گئی تھیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں