The news is by your side.

بابر اعظم کی کپتانی پر تنقید صحیح یا غلط؟

ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم نے سری لنکا اور نیدرلینڈز کے خلاف کامیابی حاصل کی تو بھارت سے پہلے کی طرح ورلڈ کپ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارتی ٹیم نے میگا ایونٹ میں گرین شرٹس کو آٹھویں مرتبہ ہرایا اور پاکستانی ٹیم ایک بھی میچ نہ جیت سکی۔ اس شکست کے ساتھ ہی سابق کرکٹرز کی جانب سے ٹیم کی کارکردگی پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا جب کہ بابر اعظم کو ان کی کپتانی اور بیٹنگ پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

یہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ ورلڈ کپ ابھی جاری ہے اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کومیدان میں‌حریف کھلاڑیوں کا مقابلہ کرنا ہے،ایسے میں‌بابر اعظم کی کپتانی پر تنقید کرنا صحیح ہے یا غلط؟ اس مسلسل تنقید کا اگلے میچوں میں‌قومی ٹیم کی کارکردگی پر کیا اثر پڑے گا؟

بابر اعظم کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے تین سال ہوگئے ہیں لیکن ان کی قیادت میں ٹیم کی پرفارمنس میں‌ کوئی بہتری نظر نہیں آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شائقین کرکٹ اور سابق کرکٹرز چیمپئنز ٹرافی کے فاتح کپتان سرفراز احمد کی مثالیں دیتے ہیں۔

گزشتہ دنوں پاکستانی ٹیم کے سابق کپتان نے بابر اعظم کو ٹیم کی قیادت چھوڑ کر اپنی بیٹنگ پر توجہ دینے کا مشورہ دیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ماضی میں بھی یہی بات کہی تھی کہ بابر اعظم کو کپتانی چھوڑ دینی چاہیے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ بابر بطور کپتان آؤٹ آف دی باکس نہیں سوچتے، وہ کپتانی کر رہے ہیں لیکن بہتری نہیں آ رہی، وہ ایک کھلاڑی کے طور پر پاکستان کے لیے شان دار کھیل کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ان کا یہ بھی مشورہ تھا کہ اگر بابر اعظم ٹیم لیڈر نہ رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو شاہین آفریدی کو وائٹ بال کرکٹ کے لیے کپتان بننا چاہیے۔ بابر اعظم کے مستعفی ہونے کی صورت میں شاہین آفریدی کو آگے لانا چاہیے۔ انہوں نے لاہور قلندرز کے لیے جارحانہ کپتانی کی ہے۔ تاہم سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد یوسف نے اس رائے کو مسترد کردیااور انہوں نے کہا کہ ’ورلڈ کپ کے دوران میرے خیال میں کسی کو بھی یہ بات نہیں کرنی چاہیے، عمران خان نے 83 اور 87 میں کپتانی کی، لیکن نہیں جیت سکے، 92 میں جیت گئے، کسی اچھے کھلاڑی کو مستقل کپتانی کرنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بابر اعظم کارکردگی کی بنیاد پر کپتان بنا ہے، وہ کسی تعلق یا سفارش پر نہیں آیا یا کسی چیئرمین کی کسی کھلاڑی سے نہیں بنی انہوں نے ہلکا پلیئر لگا دیا، ایسا نہیں ہوا۔ وہ حقیقی کپتان ہے اس کے بارے میں ایسی بات کرنا ٹھیک نہیں۔ یہ پاکستان کرکٹ اور بابر کے لیے نقصان دہ ہے۔ محمد یوسف نے کہا کہ میں حیران ہوں کہ وسیم اکرم اور معین خان وہاں بیٹھے ہوئے ہیں انہوں نے سابق کپتان کو یہ بات کرنے سے روکا نہیں۔

بابر اعظم کی کپتانی پر سوال تو اٹھتا ہے اور ان پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن شاید یہ اس وقت ٹھیک نہیں ہے۔ ٹیم ورلڈ کپ کھیل رہی ہے۔ ایسے میں شعیب ملک کو ٹیم کو سپورٹ کرنا چاہیے اور ٹیم پر تنقید کے بجائے ان کی کمزرویوں کی نشاندہی کرنا چاہیے، پرفارمنس بہتر بنانے کے لیے مشورہ دینا چاہیے اور بتانا چاہیے کہ کہاں غلطی ہورہی ہے۔

ورلڈ کپ میں ابھی پاکستان کے چھ میچز باقی ہیں، صرف بھارت کے ہاتھوں شکست پر ٹیم اور کپتان پر تنقید مناسب نہیں ہے، اس سے قبل بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھارت سے شکست کھا چکے ہیں لیکن ورلڈ کپ میں‌صرف بابر اعظم کو بھارتی ٹیم سے شکست کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اسے ٹیم کی مجموعی کارکردگی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

امید کی جاسکتی ہے کہ ٹیم ورلڈ کپ کے دیگر مقابلوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اور تب یہی سابق کرکٹرز اور شائقین کرکٹ بابر اعظم کی کپتانی اور ٹیم کی کارکردگی کی تعریف کرتے نظر آئیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں