The news is by your side.

جیت بڑے ناموں سے نہیں بڑی پرفارمنس سے ملتی ہے!

پاکستان کرکٹ ٹیم میں کھلاڑیوں کی تبدیلی کے بعد کھیل کے میدان میں نتیجہ بھی تبدیل ہوگیا اور انگلینڈ کے خلاف ملتان ٹیسٹ میں ٹیم نے کام یابی حاصل کرلی۔ پاکستانی ٹیم کو یہ کام یابی بابر اعظم، شاہین آفریدی، نسیم شاہ کے بغیر ملی ہے۔

کہتے ہیں کہ کسی بھی شعبے کام یاب ہونے اور ترقی حاصل کرنے کے لیے رسک لینا ہی پڑتا ہے۔ اگر آپ ہارنے کے ڈر سے ٹیم میں تبدیلیاں نہیں کریں گے تو ہارتے ہی چلے جائیں گے۔ یہی کچھ گزشتہ ساڑھے تین سال سے پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہو رہا ہے۔ تبھی تو ہوم گراؤنڈ پر بھی کامیابی نصیب نہیں ہورہی تھی۔ تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر، کسی بھی قسم کے دباؤ اور خوف سے آزاد ہو کر اگر پہلے ہی فیصلے کرلیے جاتے تو کرکٹ کا یہ حال نہیں ہوتا جو آج ہے۔

خیر، اب سلیکٹرز کے فیصلے کا مثبت نتیجہ سامنے آگیا ہے، ہوم گراؤنڈر پر شکست کا تسلسل ٹوٹ گیا ہے، انگلینڈ سیریز میں عاقب جاوید اور اظہر علی نے سلیکٹرز کی ذمہ داری سنبھالی اور آتے ہی مشکل فیصلہ کیا اور اسٹار کھلاڑیوں کو باہر کردیا۔ بابر اعظم، نسیم شاہ، شاہین آفریدی سب اسکواڈ سے باہر ہوئے تو اپنی باری کے منتظر کامران غلام کو بابر کی جگہ چانس ملا اور انہوں نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا اور ڈیبیو پر سنچری جڑ دی۔

بیٹنگ کے بجائے اسپن ٹریک بنانے کا خطرہ موہ لیا۔ 14 ماہ بعد نعمان علی کو کھلایا، وہ گیارہ وکٹیں لے گئے۔ ادھر ساجد خان نے بھی سلیکٹرز کو مایوس نہیں کیا اور خوب جم کر کھیلے۔ پاکستان نے ثابت کیا کہ جیت بڑے ناموں سے نہیں بڑی پرفارمنس سے ملتی ہے۔
اب سلیکٹرز کو چاہیے کہ پنڈی ٹیسٹ میں بھی وننگ کمبی نیشن برقرار رکھیں اور قومی کھلاڑی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگلینڈ کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر سیریز 2-1 سے اپنے نام کریں۔

بابر اعظم، شاہین آفریدی، نسیم شاہ کو یہ کہنا چاہیے کہ وہ جا کر ڈومیسٹک میں پرفارم کریں جس طرح دیگر کھلاڑیوں نے ڈومیسٹک میں پرفارم کرکے کم بیک کیا ہے۔ اب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آسٹریلیا کا دورہ ہے تو وہاں بابر اعظم کی ضرورت پڑے گی، جنوبی افریقہ کی پچز پر نسیم شاہ اور شاہین آفریدی کی ضرورت ہو گی۔

جنوبی افریقہ کی باؤنسی وکٹوں پر کوئی نوجوان فاسٹ بولر بھی اچھی بولنگ کرسکتا ہے۔ اس لیے نسیم اور شاہین کے نام کی مالا نہ جپیں‌۔ جن پچز پر بابر بیٹنگ کرسکتا ہے وہاں دوسرے بیٹر بھی اسکور کرسکتے ہیں لہٰذا ٹیم اب ٹریک پر آرہی ہے تو کھلاڑیوں کو پرفارمنس کی بنیاد پر ٹیم میں شامل کیا جائے۔ قومی ٹیم کو اس طرح تیار کیا جائے کہ وہ قوم کی امنگوں پر پورا اتریں۔ تعلقات، سفارش اور دوستی یاری کی بنیاد پر کھلاڑیوں کو ٹیم میں‌ جگہ دینے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اس بنیاد پر ٹیم کی سلیکشن کا نتیجہ تو ہمارے سامنے ہی ہے۔ ٹی 20 ورلڈ کپ میں بدترین شکست، ہوم گراؤنڈر پر بنگلا دیش سے پہلی بار وائٹ واش کی ہزیمت ہمیں اٹھانا پڑی۔ سلیکشن کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ جو کھلاڑی پرفارم نہ کرے اسے ٹیم سے ڈراپ کرکے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے بھیجا جائے نہ کہ خراب یا ناقص کارکردگی کے باوجود اگلی 18 اننگز بھی کھیلنے کا موقع دیا جائے۔

امید ہے کہ یہی ٹیم انگلینڈ کے خلاف تیسرے اور آخری ٹیسٹ میں اپنی شاندار کارکردگی کے سلسلے کو برقرار کھتے ہوئے سیریز اپنے نام کرے گی۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں