زمانہ بدل رہا ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ والدین اپنے بچّوں کی تربیت اور معاملات زمانہ میں ان کی راہ نمائی کرنے کے لیے نئے دور کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھیں۔ اساتذہ بھی بالخصوص نوعمروں کو تعلیم دینے کے ساتھ ان کی کردار سازی میں اپنا حصّہ ضرور ڈالیں۔
آج کے دور میں والدین کے لیے اپنی اولاد کی تربیت کرنا یقیناً آسان نہیں رہا، کیوں کہ وہ ایک ایسے عہد میں زندہ ہیں جس میں اپنے کنبے کی مالی ضروریات اور اخراجات پورا کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کے بعد بہت کم وقت بچتا ہے، جس میں والدین اپنے بچّوں کے قریب ہوں۔ آج جب اولادوں پر زیادہ توجہ دینے، ان پر نظر رکھنے یا ان کی مسلسل نگرانی کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے، تو وقت کی کمی آڑے آجاتی ہے۔
والدین ہوں یا اساتذہ بچّوں کی نفسیات کے مطابق ان کی صحیح تربیت کرنا لازم اور ضروری ہے، لیکن ظاہر ہے اس کے کچھ طریقے اور پیمانے تو موجود ہیں، مگر یہ عمل کسی ضابطے، قانون کے تحت انجام نہیں پاتا اور اس کی کچھ حدود مقرر نہیں کہ ان کے مطابق چل کر ہم اس اہم ترین فریضے کو پورا کریں۔ اولاد کی تربیت کے مختلف مراحل میں مختلف طریقے اپنائے جاسکتے ہیں جن میں ان کی ذہنی سطح، نفسیات اور جذبات کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
بچّوں کے لیے پہلی درس گاہ اور راہ نما ان کا گھر اور والدین ہوتے ہیں۔ اگر وہ اپنی اولاد کے سامنے ایک دوسرے کی عزّت اور وقار کا خیال رکھتے ہیں اور کسی بھی موقع پر ضبط اور شائستگی سے ایک دوسرے کی بات سنتے ہیں، تو بچّہ بھی اسے اپناتا ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر بچّہ مختلف مواقع پر ان کا طرزِ عمل دیکھ کر وہی سب سیکھتا ہے۔ یقیناً بچّوں کی اچھی تربیت نہایت مشکل اور صبر آزما عمل ہے اور اگر آپ مشترکہ خاندانی نظام کا حصّہ ہیں تو یہ سب مشکل تر اور بعض صورتوں میں ناممکن ہوجاتا ہے، لیکن کیا اس سے گھبرا کر سب کچھ یونہی چلنے دینا چاہیے؟ ہرگز نہیں بلکہ والدین کو تربیت کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔
ملکی ذرایع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر اس وقت کراچی کی دو نوجوان لڑکیوں دعا زہرہ اور نمرہ کاظمی کا چرچا ہورہا ہے جنھوں نے اپنے والدین کے رویّے کے خلاف گویا ‘علمِ بغاوت’ بلند کیا ہے۔ دونوں لڑکیاں والدین کی ‘عزّت اور وقار’ کا لحاظ کیے بغیر گھر سے نکل کر کسی طرح صوبۂ پنجاب پہنچیں اور پھر ان دونوں کے نکاح نامے سامنے آگئے۔ گم شدگی اور بچّیوں کے منظرِ عام پر آنے تک پولیس کی کارروائی اور تفتیش کی تفصیل یہاں غیر ضروری معلوم ہوتی ہے، لیکن ان کے ویڈیو بیانات ایک ہی مسئلے کی جانب ہماری توجہ مبذول کروا رہے ہیں اور وہ ہے والدین کی جانب سے جبر یا بچّوں پر اپنی مرضی مسلّط کرنا۔
مذکورہ واقعات پر یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ جب زندگی کے ایک مرحلے پر والدین اپنی اولاد بالخصوص لڑکی کی خوشی یا خواہش کو کچل کر اسے اپنی مرضی کے تابع اور پابند رہنے پر نہ صرف مجبور کررہے ہوں بلکہ اس کے لیے مار پیٹ کا سہارا لیں یا جذباتی طور پر بچّوں کو دھمکایا یا تشدد کا نشانہ جارہا ہو تو بگاڑ کی کوئی بھی شکل سامنے آسکتی ہے۔ کئی کیسز میں نوجوان خود کُشی جیسا انتہائی قدم بھی اٹھانے سے خود کو نہیں روک سکے ہیں۔
کیا اولاد کا اپنے والدین کے سامنے اپنی پسند کا اظہار کرنا معیوب ہے اور کیا پسند کی شادی کرنا کوئی جرم ہے؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ والدین اپنے بچّوں کی آرزو جاننے کے بعد جب لڑکے یا لڑکی کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور ہر طرح سے مطمئن ہوجائیں۔ اگر کوئی قابلِ اعتراض بات سامنے آتی ہے تو اس سے آگاہ کرتے ہوئے اپنی اولاد کو قائل کرنا زیادہ آسان ہوگا، لیکن شاید یہ سب ہمارے معاشرے میں قابلِ قبول نہیں ہے جس کی مختلف وجوہ ہیں۔
ماہرینِ نفسیات اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بچّوں پر کسی قسم کے نظریات مسلّط کرنے کی کوشش سے گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ جس دور میں پیدا ہوا ہے، اسی عہد سے مطابقت رکھنا چاہے گا اور وہ اپنے انداز سے زندگی گزارنا پسند کرے گا۔ ہمیں بچوں کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی پر توجہ دیتے ہوئے نئے عہد کے اصولوں اور معیار کے مطابق جینے کا انھیں حق دے کر ماضی کی پرستش کرنے سے گریز کرنا ہو گا۔
شاید سب سے اہم بات بچّوں کا اعتماد بحال کرنا اور خود کو ان کا دوست اور خیرخواہ ثابت کرنا ہے جس کے بعد تربیت کے مشکل مراحل خاصی حد تک آسان ہو جاتے ہیں۔ اسے احساس دلانا ضروری ہے کہ وہ خود مختار ہے اور عملی زندگی میں شامل ہورہا ہے جہاں وہ اپنی ذات سے متعلق ضروری فیصلے کرسکتا ہے، لیکن اپنے والدین سے صلاح مشورہ اور ان کی رضامندی کسی معاملے میں حاصل کرنا بہتر ہے۔ بچّوں کو ممکن اور ضروری حد تک آزادی دینا انھیں زیادہ پُراعتماد اور باشعور بناتا ہے۔
الغرض اولاد کو صرف اپنی سنانے اور اپنی ہی بات منوانے کے بجائے والدین کو چاہیے کہ ان کی بات تحمل اور برداشت سے سنیں اور ہر ممکن اور جائز خواہش یا ان کے مطالبے کو مانیں۔ ایک خاص عمر تک روک ٹوک اور کسی معاملے میں سختی کے ساتھ ان سے دوستانہ تعلق اور قربت بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔