The news is by your side.

نائیجیریا میں پاکستانی مغوی اور عالمی بے حسی

نائیجیریا میں پاکستانی ڈاکٹر ابو ذر محمد افضل کی زندگی کی سانسیں دہشت گردوں کی جانب سے تقریباً گنی جا چکی ہیں۔ ”لٹیرے“ (Bandit) کہلانے والوں کے ایک گروہ کی قید سے اپنے ویڈیو بیان میں ابو ذر نے اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر نائیجیریا کی حکومت نے اس گروہ کے مطالبات نہ مانے تو تمام مغویوں سمیت انہیں قتل کردیا جائے گا۔ مہلت سات روز کی تھی جس کے مکمل ہونے میں بس ایک دن باقی ہے، لیکن پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے خاموشی ہے۔

پریشانی ہو بھی تو بھلا کیوں؟ افریقہ جیسے پس ماندہ خطے کے امن سے دنیا کے دیگر ممالک کا کیا لینا دینا، وہاں موجود بے چینی، بدامنی، معاشی اور سیاسی ابتری گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی ہے، لیکن یہاں قیامِ امن کے لیے سنجیدہ کوششوں اور عالمی دباﺅ کا فقدان نظر آتا ہے۔ نائیجیریا میں پہلے بوکو حرام اور اب لٹیروں کے مختلف گروہوں نے عام شہریوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ آئے دن اغوا اور قتل کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔ ایسے ہی ایک گروہ کی جانب سے 28 مارچ کو ساٹھ افراد کو اغوا کیا گیا جن میں بدقسمتی سے ایک پاکستانی شہری ابو ذر فضل بھی شامل ہے۔ انہیں‌ ٹرین پر حملے کے دوران لٹیروں کے ایک گروہ نے اغوا کر لیا تھا جن کی رہائی کے لیے حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھے تھے۔ اغوا کاروں نے سات یوم کے اندر مطالبات پورے نہ کیے جانے کی صورت میں‌ مغویوں‌ کے قتل کی دھمکی دی تھی۔

نائیجیریا میں دہشت گرد گروہوں کی جانب سے لوٹ مار، اغوا اور قتل کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ تازہ کارروائیوں کو دیکھیں تو پچھلے چھے ماہ میں ایک سو ساٹھ افراد کو اغوا کر کے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے، جن میں اکثریت نائیجیرین باشندوں کی ہے، لیکن اس بار پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع راجن پور کے پی ایچ ڈی ڈاکٹر ابو ذر بھی لپیٹ میں آگئے ہیں۔

مئی کے آخری ہفتے میں اغوا کاروں کی قید سے ابو ذر محمد افضل کا ویڈیو بیان سامنے آنے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستانی حکومت نائیجیریا کی حکومت سے رابطہ کرکے اپنے شہری کو بازیاب کرانے کے لیے دباؤ ڈالتی اور عالمی سطح پر اس مسئلے کو اٹھایا جاتا، پاکستانی سفارت خانہ اپنا فعال کردار ادا کرتا اور مغویوں کی رہائی کے لیے سنجیدہ کوششیں تیز ہوتیں، لیکن افسوس ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جواں سال ابو ذر جو پی ایچ ڈی کرنے کے باوجود پاکستان میں اپنا روشن مستقبل تلاش نہ کرسکا اور اپنا زرخیز ذہن لے کر یہاں سے رخصت ہوگیا، جو کمانے کے لیے اس جگہ جانے پر مجبور ہوگیا جہاں مطمئن اور پرسکون زندگی گزارنے کے خواہش مند افراد بھی نہیں جانا چاہیں گے، لیکن ابو ذر نے اپنے خاندان کی کفالت کے لیے اس ملک کا انتخاب کیا، جس کی سزا وہ نائیجیریا میں بھگت رہا ہے۔

سمندر پار سے بھاری زرِ مبادلہ بھیجنے والے پاکستانیوں کا یہ المیہ ہے کہ وہ ساری قربانیاں دے کر بھی پردیس میں دکھ جھیلنے کو تنہا پڑے رہتے ہیں۔ حالیہ واقعے میں بھی پاکستانی سفارت خانے نے صرف تسلیاں دینے کو کافی سمجھتے ہوئے ابو ذر کی رہائی کے لیے عملاً کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ ابو ذر کے والدین جن کے لیے ایک ایک پل قیامت ہے، میڈیا کے سامنے ہاتھ جوڑے اربابِ اختیار سے اپیل پر اپیل کیے جارہے ہیں کہ ان کے بیٹے کو بحفاظت وطن لایا جائے لیکن ان کی پکار پر کان دھرنے والا کوئی نہیں ہے اور المیے خالی تسلیوں سے کہاں بہلتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ پاکستانی سفارت خانے کی یہ بے حسی کیا پہلی بار ہے؟ یقیناً نہیں۔ ماضی میں بے شمار واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ حکومت اور دنیا کے مختلف ممالک میں پاکستانی سفارت خانے اہم اور حساس نوعیت کے مسئلے کو بھی ردی کی ٹوکری کی نذر کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اس واقعے میں بھی دفترِ خارجہ کی بے پروائی اور کوتاہی صاف نظر آرہی ہے۔ دفترِخارجہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم ڈاکٹر ابوذر کی رہائی کے لیے ہرممکن کوشش کر رہے ہیں، لیکن وہ کوششیں کیا ہیں اور ان کے اب تک کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں؟ یہ تفصیلات بتانے سے دفترِ خارجہ قاصر ہے۔

پردیس جانے والے شوق سے بھلا کب جاتے ہیں، کون اپنی چاہت سے اپنوں کو چھوڑتا ہے۔ ضرورتیں اور مجبوریاں آسیب کی طرح لپٹتی ہیں تو پھر بھاگنا پڑتا ہے۔ یہی کہانی ڈاکٹر ابو ذر کی بھی ہے۔ اس کے بوڑھے والدین آج رو رو کر عرش ہلا رہے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں۔ جس ملک میں پی ایچ ڈی والے کو بھی نوکری نہ ملے وہاں نوجوانوں کو اپنا مستقبل کیا نظر آئے گا؟ صرف اربابِ اقتدار سے کیا شکوہ کریں، یہاں تو عوامی سطح پر بھی اس معاملے پر کوئی بے چینی دیکھنے میں نظر نہیں آرہی۔ سوشل میڈیا کا ہتھیار سب کے پاس موجود ہے، لوگ جس واقعے کو چاہتے ہیں اسے دنیا تک پہنچا دیتے ہیں، کہرام مچا دیتے ہیں، لیکن افسوس یہاں معاملہ سنگین ہونے کے باوجود کسی کی ترجیح نہیں ہے۔

شہریوں کو اغوا کر کے حکومت سے مطالبات منوانا اور نہ ماننے کی صورت میں قتل کر دینا نائیجیریا میں بوکو حرام کی ڈالی ہوئی روایت ہے۔ اور اب نائیجیریا میں دہشت گردوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ مشترکہ طور پر یہی کر رہے ہیں، یہ لوگ بوکو حرام سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ اور سب سے افسوس ناک امر یہ ہے کہ نائیجیریا میں کوئی ایک سیاسی لیڈر ایسا نہیں جو مدبرانہ طریقے سے ان نام نہاد جہادی گروہوں سے نمٹ سکے اور ان کے چنگل سے ملک کو آزاد کروا سکے۔

اس وقت 62 مغویوں کی رہائی کے عوض لٹیرے اپنے آٹھ ساتھیوں کو چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مغویوں کی نہ صرف جان خطرے میں ہے بلکہ ان کی جسمانی حالت بھی بہت خراب ہے اور ان میں سے بے شمار افراد شدید بیمار ہیں۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ صورت حال بگڑتی جا رہی ہے۔ ہر ویڈیو میں مغوی نائیجیریا کی وفاقی حکومت سے بار بار اپیل کر رہے ہیں کہ ان کی رہائی کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں، لیکن نتیجہ ڈھاک کے تین پات۔

حکومتِ پاکستان کو اس وقت اپنی ماضی کی کوتاہیوں کے نتائج پیشِ نظر رکھتے ہوئے فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امکان بھی موجود ہے کہ شاید مغویوں کے قتل کی مہلت بڑھا دی جائے، اگر ایسا ہے تو پاکستان کو اپنے شہری کی بازیابی کے لیے کوششیں کرنے کا مناسب وقت مل سکے گا۔ یہ ضروری ہے کہ نائیجیریا کی حکومت پر دباﺅ بڑھایا جائے کہ وہ انسانی جانوں‌ کو بچانے کے لیے اس معاملے کو جلد از جلد حل کرے اور پاکستانی ڈاکٹر کو بحفاظت پاکستان لایا جائے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آئندہ اس قسم کے واقعات سے بچنے کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مکمل راہ نمائی فراہم کی جائے۔ وہ ممالک جو دہشت گردی اور خانہ جنگی کا شکار ہیں وہاں کا سفارت خانہ ان کی سیکیوریٹی کے مناسب اقدامات کرے اور ان سے مسلسل رابطہ رکھتے ہوئے کوئی ایسی حکمتِ عملی اپنائے کہ وہ اپنی جان اور مال کی حفاظت کرتے ہوئے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصّہ ڈال سکیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں