تحریر: فضیل اشرف قیصرانی
تاریخ کیا بتاتی ہے، یہ بتانے سے پہلے اسی تاریخ کا بیان منیر نیازی کے اس شعر میں ملاحظہ ہو،
منیر اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ، آہستہ
بحیثیت ملک اور معاشرہ دائروں کے سفر کا بیان شاید ہم پر ہی صادق آتا ہے کہ کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی نہ ہماری مشکلات کم ہوئیں، نہ ہی معاملات سلجھے اور نہ ہی کسی واضح منزل کا تعین ہو سکا۔
جمہوریت دیکھ لی اور ساتھ ہی جمہوریت کے راگ بھی الاپ لیے، آمرانہ طرزِ حکومت کا مزہ بھی چکھ لیا اور ساتھ ہی یہ راگنی بھی چھیڑ کے دیکھ لی کہ یہ قوم ڈنڈے کے آگے سیدھی ہے اور اس طرزِ حکومت کے شدید ماننے والے تو یہ کہنے سے بھی نہ چُوکے کہ چوکوں پر کم از کم پانچ سو لوگوں کو لٹکایا جائے تو کیا ہی بات ہو۔
اسلام پسندی، اعتدال پسندی، صدر نشینی، سنگاپوری، جاپانی، چینی حتیٰ کہ امریکی ماڈل تک کا ڈھول پیٹ لیا، مگر سفر وہی دائروں کا کہ آج یہ سودا بک گیا تو کل کوئی اور مال لگا لیں گے۔ گویا ملک نہ ہوا، اچھے پھل والے شاپر کو گلے سڑے پھل سے بدلنے والے پھل فروش کی ریڑھی ہو گئی۔
ریڑھی بان بھی کئی بدل کے دیکھ لیے مگر شاپر سے پھل جب بھی نکلے ، گلے سڑے ہی نکلے۔ ہم جیسوں نے پھل محدب عدسے لگا کر خریدے، پھل فروش کے ہاتھوں کی حرکتوں پر بھی مکمل نظر رکھی، پھل اپنے ہاتھوں سے چُن کر شاپر کو گرہ تک خود لگائی، شاپر ڈبل کرواتے ہوئے شاپر میں پھونک بھی خود ماری، تول کے باٹ، ریزگاری، ریڑھی پر جھولتے کیلے کے لُونگر حتیٰ کہ ریڑھی بان کے سیاسی اور مہنگائی کے مباحثے بھی ہماری نظروں کو شاپر سے نہ ہٹا سکے مگر حیف گھر جا کے جب بھی شاپر کھولا، شاپر سے برآمد ہوئے تو بس گلے سڑے پھل۔
تاریخ کے ظالم پہیے کو بھی ہمارے سفری دائرے پر رحم نہ آیا کہ ریڑھی کا پہیہ اور تاریخ کا پہیہ ایک ہی سمت کو گامزن ہیں۔ ریڑھی بان کے ہاتھ ریڑھی کے دستے کو بڑی مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں اور ظالم کے ہاتھوں کی صفائی بھی وہ ہے کہ ریڑھی کے میل زدہ دستے بھی لش پش کیے جاتے ہیں، اتنے لش پش کے دستوں پہ آئنوں کا گماں ہوتا ہے۔
ایسے ہی کسی گمان میں ریڑھی بان وہ گلی مڑ چکا ہے کہ جہاں گلی کے شروع میں ایک بورڈ اس عبارت کے ساتھ آویزاں ہے،” احتیاط سے، آگے گلی بند ہے۔” بہتّر سالہ دائروں کے سفر کے بعد ریڑھی بان اپنی ریڑھی سمیت بند گلی میں آن پہنچا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دائروں کے سفر میں قصور پھلوں، ریڑھی اور خریداروں کا اتنا نہیں جتنا ریڑھی بان کا ہے۔ ریڑھی بان سوچ سمجھ کر چنو، سوچ سمجھ کر بدلو کہ صرف ریڑھی بان کے سہارے اگر ریڑھی چھوڑ دی جائے تو شاید ریڑھی تو پھلوں سمیت محفوظ رہے مگر ریڑھی پہ خریدار آئیں، اس کا امکان کم ہی ہے۔