The news is by your side.

مہنگائی کے دنوں میں محبت

ہم اپنی یہ تحریر شیخ سعدی کے ایک مصرعے سے شروع کرنے والے تھے، تو سوچا اس ڈیجیٹل دور کی نسل کو پہلے بتا دیں کہ شیخ سعدی کون تھے۔

یہ ضروری اس لیے ہے کہ ہمارے نوجوان، بلکہ بہت سے ہماری عمر کے دو بار پچیس سال کے ہوجانے والے ”لڑکے“ بھی، صرف عصرِ حاضر ہی کے کچھ شیوخ سے واقف ہیں، جن میں سرفہرست وہ شیخ جو ہیں ہمیں تیل دیتے ہیں، اور دوسرے ”شیخ“ جو جلتی پر تیل چھڑکتے ہیں۔

ان دو شیوخ میں بس اتنا تعلق ہے کہ پہلے والے شیخ جنھیں جدہ میں پناہ دیتے ہیں، وہ دوسرے والے شیخ کی زبان سے پناہ مانگتے ہیں۔ ہمارے ہاں تیسرے شیخ اداکار جاوید شیخ ہیں، جو ہر دوسری پاکستانی فلم میں اس طرح نظر آتے ہیں جس طرح پاکستان کے بعض سیاست داں ہر مقبول ہوتی یا برسرِاقتدار جماعت میں دکھائی دیتے ہیں۔

شیخ سعدی کا ان سب شیخوں سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ وہ فارسی کے شاعر تھے، اور صدیوں پہلے دنیا سے جا چکے ہیں۔ ان شیخ سعدی نے کہا تھا ”ایک بار دمشق میں ایسا قحط پڑا کہ لوگ عشق کرنا بھی بھول گئے۔“

وہ ٹھہرے دمشق کے عشاق، چھوٹی موٹی مصیبتوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، قحط پڑنے پر ہی عشق ان کی یادداشت سے محو ہوسکتا تھا، لیکن بھیا ہم بڑے کم زور لوگ ہیں، ہم تو معشوق کے کسی عزیز کا تھپڑ اور پولیس کا چھاپہ پڑنے پر بھی عشق بھول جاتے ہیں۔

گیبریل گارشیا مارکیز کے ناول ”وبا کے دنوں میں محبت“ کی وبا شیخ سعدی کے قحط کے بہت بعد کی بات ہے۔ ناول کے عنوان کا صحیح ترجمہ تو تھا ”ہیضے کے دنوں میں محبت“ لیکن شاید مترجم کو خطرہ تھا کہ ذرا سی غلطی عنوان کو بہت زیادہ بامعنیٰ بنا کر ترجمے پر پابندی نہ لگوا دے، اس لیے ہیضے کی جگہ وبا کا لفظ استعمال کیا گیا۔ بہ ہر حال، دمشق کے باسی تو قحط کے باعث عشق بھلا بیٹھتے تھے، لیکن مارکیز کے ناول کے کردار ہیضے کے دور میں بھی محبت کرنے سے باز نہ آئے۔ یقیناً اس وبا کے دوران کورونا کے ایّام کی طرح سماجی فاصلہ رکھنے کی پابندی نہیں ہوگی، ورنہ دورانِ وبا گلے لگانے کو تڑپتا ہر محبوب جی نہیں لگ رہا محبت میں، کا گلہ کر رہا ہوتا اور یہ ناول پڑھنے میں بھی بہت سے لوگوں کا دل نہ لگتا اور وہ چند اوراق کے بعد ہی اس سے سماجی فاصلہ اختیار کر لیتے۔

فی الوقت اللہ کا شکر ہے ہمارے ملک میں کورونا کی وبا کا زور ٹوٹ چکا ہے اور قحط بھی نہیں پڑا، لیکن مہنگائی کا جو بوجھ عوام کے سر پر آ پڑا ہے اس کی وجہ سے عشق دل و دماغ سے نکل کر دور جا پڑا ہے۔ حال یہ ہے کہ جو لوگ سامنے والی کھڑکی میں چاند سا چہرہ دیکھ کر اس چاند سے اپنی عید کرنے کی آس میں اپنی کھڑکی کا پردہ بنے، دن بھر لٹکے رہتے تھے، اب وہ یاروں دوستوں کے پاس جاکر گریہ کناں ہیں، ”کوئی تعویذ دو ردِّ بلا کا، ”پڑوسن“ میرے پیچھے پڑ گئی ہے۔“ جو سنگ دل محبوب کو اپنے قدموں میں لانے کے لیے کالے علم والے ”پروفیسر“ کے دیواری اشتہارات پڑھ کر تعویز لینے پہنچ جایا کرتے تھے، وہ اب اسی پروفیسر کے قدموں میں پڑے فریاد کرتے ہیں کہ ”بابا! وہ قدموں میں پڑی ہے، اور میں بیکار پڑا ہوں، اب اسے قدموں سے اٹھا بھی دو، تاکہ روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر۔“ دراصل بے روزگار ”مچھندر“ کو ”باہر نکل اور نوکری ڈھونڈ“ کے سخت جملے کے ساتھ باپ کا ہاتھ پڑا ہے۔ مگر پروفیسر اڑا ہوا ہے کہ اب عمل کرنے کی فیس دگنی ہوگی، کیوں کہ سنگ دل محبوب کو باہر کے کھانوں اور مفت میں موبائل بیلنس لوڈ کرانے کے مزے لگ گئے ہیں، اور وہ صرف قدموں میں نہیں تمھارے گوڈے گٹوں میں بیٹھ گیا ہے۔

جنھیں پہلی نظر میں محبت ہوگئی تھی، وہ اپنی محبوبہ کو آخری بار پیٹرول کی قیمت بڑھنے سے پہلے نظر آئے تھے۔ اب اپنی موٹرسائیکل کے میٹر پر نظر جمائے وہ اپنی پہلی نظر والی (حسبِ ارادہ) آخری محبت کے محلّے سے دور دور ہی گزر جاتے ہیں۔ وہ جو معشوق پر جان دینے کو ہر وقت تیار رہتے تھے، گرانی کے باعث انھیں یوں لینے کے دینے پڑے ہیں کہ جب اپنی ”جان“ کو ریستوراں میں کھانا کھلانے کے بعد بِل دیکھ کر جان پر بن آتی ہے، تو سامنے بے فکری سے بیٹھی جان سے کہنے کو دل چاہتا ہے،”جان! میں تمھیں کسی اور کو دے دوں؟“

چاند تارے لانے کا دعویٰ تو خیر عشاق کی بہت پُرانی ”گولی“ ہے، جس پر آج تک کسی محبوبہ نے یقین نہیں کیا، اور جس نے یقین کر کے ”تو کب لا رہے ہیں چاند“ کی تکرار شروع کی، اس کے محبوب کو تنگ آکر درخواست کرنا پڑی، ”اے چاند یہاں نکلا نہ کر۔“ اب تو حال یہ ہے کہ چاند تارے توڑ لانے کا جھانسا دینے والے کو چار تاروں والے ہوٹل میں چائے پلانے کی فرمائش پر بھی دن میں تارے نظر آجاتے ہیں، اور وہ اپنے ”چاند“ کو اسی طرح نظر انداز کر کے جیسے رویتِ ہلال کمیٹی پشاور میں نظر آنے والے چاند سے نظریں چُرا لیتی ہے، یوٹیلیٹی اسٹورز کی قطاروں میں آٹا گھی لینے کے لیے کھڑا چندیا کھجا رہا ہوتا ہے۔

نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ محبوب خود اپنی محبوباﺅں کے لیے رشتے تلاش کر رہے ہیں۔ خود ہمارے ایک دوست بھائی رفیق عرف ”فیکا“ اپنی محبوبہ کو موبائل فون کے نئے سے نئے ماڈل خرید کر دینے سے تنگ آنے کے بعد بڑے جتن کر کے اس کی نسبت ٹھہرا چکے ہیں، بتا رہے تھے کہ آخری ملاقات میں انھوں نے اسے گا کر سمجھایا کہ جا کے سسرال گوری ”فیکے“ کی لاج رکھنا۔

انقلابیوں کو فیض کی نظم ”لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے“ بھاتی ہے، اور ان دنوں محبت کرنے والے فیض کی ایک اور نظم ”مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ“ گنگنا رہے ہیں۔ یہاں محبت نہ مانگنے سے مراد ہے موبائل کا بیلنس، نیا موبائل، سال گرہ کا تحفہ، ویلنٹائن ڈے کے پھول اور چاکلیٹ اور ریستورانوں کا کھانا نہ مانگ۔ اس فہرست میں مانگ بھرنے کا وعدہ بھی شامل ہے۔

پہلی سی محبت نہ مانگنے کی التجا پر اگر کوئی محبوبہ پھیل جائے اور غل مچا دے کہ زندگی سے ”کیوں نکالا“ تو ممکن ہے کہ وہ اپنے اعزّا سے بول کر محبوب صاحب کو ”خاک میں لتھڑے ہوئے، خون میں نہلائے ہوئے“ کروا دے۔ چناں چہ عقل مند محبوب آسرا دے دیتے ہیں کہ بی بی! ذرا ٹھہر جاﺅ، ”محبت اب نہیں ہوگی، یہ کچھ دن بعد میں ہوگی“ اور ”بعد میں کب“ کا جواب دیتے ہیں، ”آمدنی بڑھنے یا مہنگائی گھٹنے کے بعد۔“ گرانی نے یوں گراں بار کیا ہے کہ اس دور میں اگر محلّے کی کوئی حمیدہ، جمیلہ، شکیلہ غلطی سے بھی مسکرا کر دیکھ لے، تو بندہ حفظِ ماتقدم کے طور پر جون ایلیا کے الفاظ میں پوچھتا ہے:

مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے
تمھیں مجھ سے محبّت ہوگئی کیا

ہمارا مشورہ ہے کہ کسی کو جب بھی کسی کی ادائیں محبت کا پیغام بن کر ڈرائیں تو جھٹ سے“ اس ”زیرِ تعمیر“ محبت سے اُدھار مانگ لے، کیوں کہ اُدھار محبت کی قینچی ہے، بس ایک بار محبت اس قینچی سے کٹ گئی، تو جیب کٹنے سے بچ جائے گی، اور اس مہنگائی میں جیب خالی کرنے سے بہتر ہے دل خالی رکھا جائے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں