آج سندھ ہائیکورٹ نے دعا زہرا کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی اجازت دے دی اور کہا کہ وہ جس کے ساتھ جانا یا رہنا چاہے، رہ سکتی ہے۔
کراچی کے علاقے گرین ٹاؤن کی رہائشی دعا زہرا کی گم شدگی کی خبر رمضان کے مہینے میں ملکی ذرائع ابلاغ پر نشر ہوئی اور لڑکی کے والدین مختلف چینلوں پر واقعے سے متعلق ضروری تفصیل بتاتے ہوئے کراچی پولیس سے اپنی بیٹی کو تلاش کرنے اور بحفاظت اس کی واپسی کے لیے اپیل کرتے نظر آئے۔ سوشل میڈیا پر جہاں لوگوں نے اس واقعے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا، وہیں یہ بھی کہا جانے لگا کہ لڑکی اپنے والدین کے رویّے سے تنگ آکر خود گھر چھوڑ گئی ہے۔ بعد میں یہ کھلا کہ دعا زہرا نے ظہیر احمد نامی لڑکے سے شادی کرلی ہے جس کا تعلق صوبۂ پنجاب کے ایک شہر سے ہے۔ کہا جارہا تھا کہ ان کی دوستی آن لائن گیم کے دوران ہوئی تھی۔
SHC judgement in #DuaZehra case pic.twitter.com/DI40BQj0lc
— Anees Hanif (@anees_avis) June 11, 2022
لڑکی کی گم شدگی کے بعد اس کے والدین مقدمہ درج کروانے کے لیے تھانے پہنچے تو پولیس نے ابتدا میں اغوا مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا، لیکن بعد میں مقدمہ درج کرلیا گیا۔ والدین کا اصرار تھا کہ ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا ہے اور وہ گھر سے بھاگی نہیں ہے۔ چند دنوں کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ دعا نے نکاح کرلیا ہے اور پھر اس کا ایک ویڈیو پیغام بھی سامنے آیا جس میں اس نے کہا کہ وہ والدین کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور اپنی مرضی سے نکاح کر چکی ہے، لڑکی نے یہ بھی کہا کہ ہماری زندگی کو خطرہ ہے۔
آج عدالت نے تو دعا زہرا کا یہ حق تسلیم کرتے ہوئے فیصلہ سنا دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق زندگی گزارے اور اسے یہ اختیار ہے کہ وہ جس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، رہ سکتی ہے، لیکن یہ سوال ایک مرتبہ پھر ہمارے سامنے ہے کہ آج ایک اور بیٹی ایسا قدم اٹھانے پر کیوں مجبور ہوئی؟ کیا اس میں والدین قصور وار ہیں یا پھر لڑکی کی غلطی ہے کہ اس نے والدین کو اعتماد میں نہیں لیا، اپنی پسند، اپنی خواہش سے آگاہ نہیں کیا اور خود ہی اپنی زندگی کا ایک اہم فیصلہ کرلیا۔
دعا زہرا کا کیس کچھ پیچیدہ یوں رہا کہ گم شدگی کے بعد والدین کے ابتدائی اور بعد کے بیانات میں تضاد نظر آنے لگا تھا۔ یہ بھی سامنے آیا کہ دعا زہرا کو تیسری جماعت سے اسکول ہی نہیں بھیجا گیا اور والدہ نے کہا کہ وہ گھر کے سارے کام کرتی تھی، اور چھوٹی بہن کو بھی سنبھالتی تھی۔ یہاں لوگ یہ سوال اٹھانے لگے کہ جب اس کی پڑھنے کی عمر تھی تو اس سے گھر کے کام کاج کروائے جارہے تھے اور یہی نہیں بلکہ وہ اسمارٹ فون پر آن لائن گیم کھیلتی رہتی تھی اور والدین اس سے کس طرح لاعلم رہے کہ وہ ایک لڑکے سے رابطے میں ہے، وہ گھر میں اس طرح اپنا وقت گزار رہی تھی اور کیا ایسی وجہ تھی کہ والدین نے اپنی بیٹی کی تعلیم پر کوئی توجہ نہ دی۔
دعا زہرا کے گھر والوں کے بارے میں یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی مالی حالت مستحکم نہیں اور وہ بیٹی کے تعلیمی اخراجات پورے نہیں کرسکتے تھے۔ خیر، جب دعا ہر وقت گھر میں رہتی تھی تو والدین کو اس کے معمولات اور خاص طور پر اس کی آن لائن سرگرمیوں پر تو نظر رکھنی چاہیے تھی۔ والدہ بات چیت سے اپنی بیٹی کی پریشانی، یا کسی بھی مسئلے کے بارے میں جان سکتی تھیں اور یہ معلوم کرسکتی تھیں کہ وہ کیا سوچتی ہے اور اس کے جذبات و خیالات کیا ہیں تاکہ والدین کو یہ دن ہی نہ دیکھنا پڑتا۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اگر کوئی لڑکی گھر چھوڑ جائے اور اپنی مرضی سے نکاح کرلے یا پسند کی شادی کرکے نئی زندگی شروع کرے تو گھر میں موجود اس کی بڑی یا چھوٹی بہنوں کا رشتہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس سارے معاملے میں دعا کے شوہر ظہیر نے مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی اور اس نوجوان نے کوئی بیان نہیں دیا۔
اس کیس میں صرف دعا زہرا اور اس کے والدین کی جانب سے بیانات دیے جاتے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دعا کے والدین کو سخت غافل اور غیر ذمہ دار قرار دینے کے ساتھ لوگوں نے ظہیر کی خاموشی پر اور اس کے خاندان کی مالی حالت سے متعلق بھی بہت کچھ کہا ہے، لیکن افسوس اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کے بعد سب کا یہی کہنا ہے کہ دعا کے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کو معاف کر دیں اور اس جوڑے کو ہنسی خوشی زندگی گزارنے دی جائے۔ معاشرے اور بالخصوص والدین کو یہ جاننے کی کوشش کرنا چاہیے کہ دعا زہرا کیوں یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوئی؟