پاکستان کے دوسرے سب سے زیادہ آبادی والے اور زراعت پر انحصار کرنے والے صوبۂ سندھ کی اکثریت 23 اگست کو “آفت زدہ” قرار دی گئی تھی۔ تباہ کن گرمی کی لہر کے نتیجے میں پاکستان بھر میں مون سون کی طوفانی بارشوں سے، سندھ میں گندم کی فصل میں تقریباً 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تباہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل بڑھ رہے ہیں، اور زراعت میں موافقتی اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔
جولائی میں سندھ اور بلوچستان میں 30 سالہ اوسط سے 500 فیصد زیادہ بارش ہوئی۔ 21 اگست کو ایک سرکاری نوٹیفکیشن میں، صوبائی حکومت نے اعلان کیا کہ “بھاری نقصانات ہوئے ہیں جن میں انسانی جانوں، مویشیوں کا نقصان، مکانات اور کھڑی فصلوں کے نقصانات” شامل ہیں۔ اس میں بتایا گیا کہ زراعت سب سے زیادہ متاثرہ شعبوں میں سے ایک ہے۔
صوبائی حکومت کے ایگریکلچر ایکسٹینشن سندھ ڈیپارٹمنٹ کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر علی نواز چنر نے دی تھرڈ پول کو بتایا، “سندھ میں جاری مون سون کی وجہ سے اب تک کپاس میں 45 فیصد، کھجور میں 85 فیصد اور چاول میں 31 فیصد نقصان ہوا ہے۔ گنے کی کھڑی فصل کو بھی سیلاب کی وجہ سے 7 فیصد تک نقصان پہنچا ہے، حالانکہ یہ زیادہ پانی استعمال کرنے والی فصل ہے، جو اس تباہی کی شدّت کو ظاہر کرتی ہے جس کا ہم سامنا کررہے ہیں۔” چنر نے مزید کہا، “چونکہ کھجور کے علاوہ یہ سب کھڑی فصلیں ہیں، اس لئے کٹائی کے موسم کے اختتام تک نقصان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔”
جنوب مشرقی پاکستان میں، سندھ، تقریباً 48 ملین افراد کا گھر ہے اور ملک کی کل زرعی پیداوار میں تقریباً ایک چوتھائی حصہ اس کا ہے۔ تاہم، اس سال کے تباہ کن سیلاب، صوبے میں زراعت کو لاحق مسائل کا محض ایک حصہ ہیں۔ چنر نے کہا کہ اس سال، سندھ نے ” زوال پذیر زرعی پیداوار میں ایک نئے پیٹرن کا مشاہدہ کیا ہے۔”، انہوں نے مزید کہا کہ فصلوں کو ایک ہی سال میں بالترتیب خشک سالی اور سیلاب جیسے شدید موسمی واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔
خشک سالی اور سیلاب نے سندھ کی زراعت کو تباہ کر دیا ہے
مئی میں سندھ چیمبر آف ایگریکلچر نے مطالبہ کیا کہ سندھ کو قحط زدہ قرار دیا جائے کیونکہ پانی کی کمی نے زرعی زمین کو بنجر کر دیا ہے۔ چنر نے کہا، “سندھ کی زرعی معیشت ہونے کے باعث یہ نقصان پاکستان میں کاشتکاری کے مستقبل کے لئے تشویشناک ہے اور قومی غذائی تحفظ کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔”
چنر کی طرف سے فراہم کئے گئے سندھ ایگریکلچر ایکسٹینشن ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2022 کے آغاز میں جب موسم سرما کی فصلیں بوئی جا رہی تھیں، صوبے میں پانی کی 70 فیصد کمی تھی۔ اس سے وہ رقبہ سکڑ گیا جو فصلوں کو اگانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ چنار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ” جس رقبے پر گندم اور کپاس کی کاشت ہوتی ہے اس میں کمی کا تعلق بوائی کے دوران پانی کی کمی سے ہے۔”
محکمہ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2022 کی گندم کی پیداوار، ہدف شدہ رقبے میں 2 فیصد کمی کے ساتھ، 17 فیصد کم ہے۔ کپاس کے لئے استعمال ہونے والا رقبہ ہدف سے 19 فیصد کم تھا اور آم کی پیداوار ہدف سے 30 فیصد کم تھی۔
اکنامک سروے پاکستان کے مطابق، 2021-22 کے مالی سال میں زراعت کا حصّہ پاکستان کی مجموعی گھریلو پیداوار میں 22.7 فیصد رہا، جبکہ 2020-21 میں یہ 23 فیصد تھا۔ یہ 2021-22 میں اس شعبے کی شرح نمو 4.4 فیصد تک بڑھنے کے باوجود تھا، جو 2020-21 میں 3.5 فیصد تھا۔ پاکستان کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ گزشتہ برسوں کے دوران مسلسل کم ہوتا رہا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کی بنیاد پر، اس سال کمی ممکنہ طور پر پیداوار میں شدید کمی کی شکل میں ظاہر ہوگی۔
سندھ کے ایگریکلچر ریسرچ سینٹر (اے آر سی) ٹنڈو جام کا ڈیٹا کپاس اور گندم کی پیداوار میں کمی دکھاتا ہے جو دونوں بڑی برآمدی فصلیں ہیں۔
سندھ: چار بڑی فصلوں کی پیداوار اور کاشت کے رقبے میں تبدیلی
سندھ کے اے آر سی ٹنڈو جام کے ڈائریکٹر لیاقت علی بھٹو نے کہا کہ جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ غیر تسلی بخش ہے۔ بھٹو نے کہا،” 1947 میں پاکستان کی آزادی کے وقت قومی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 50 فیصد سے زیادہ تھا۔ اگرچہ ہم ایک زرعی ملک ہیں، ہم اپنی قومی معیشت میں زراعت کے ان پٹ کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ ہمیں جنگی بنیادوں پر موافقت پذیر اقدامات کرتے ہوئے اپنی زراعت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔” بھٹو نے مزید کہا کہ 2016-20 کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سندھ میں زراعت کے لیے استعمال ہونے والے رقبے میں کافی کمی آئی ہے اور صوبے کو مجموعی پیداوار میں کمی کا سامنا ہے۔
خواتین پر اثرات
رفیعہ گلانی ضلع سانگھڑ میں رہتی ہیں اور ایک سرگرم کارکن ہیں جو خواتین کارکنوں کے حقوق کے لئے مہم چلانے کے ساتھ ساتھ سندھ ناری پورہیت کونسل کی چیئرپرسن بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مون سون کی جاری بارشوں کا سب سے بڑا نقصان خواتین کو ہے۔
جب پاکستان میں زراعت کی بات کی جائے تو یہاں مزدوروں کی اکثریت خواتین پہ مشتمل ہے۔ تاہم، اس مون سون نے کسانوں کو اور خاص طور پر خواتین کو بے روزگار کر دیا ہے۔” گلانی نے تھرڈ پول کو بتایا۔ انہوں نے کہا کہ کسان جو زرعی ملازمتوں کے لئے طویل فاصلے کا سفر کرتے ہیں وہ ان مواقعوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ خواتین کی نقل و حرکت، خاص طور پر دیہی پاکستان میں، پہلے ہی مشکل ہے اور سیلاب زدہ سڑکیں موجودہ رکاوٹوں میں اضافہ کرتی ہیں، جس کی وجہ سے خواتین کو مردوں کے مقابلے میں اپنی ملازمتوں سے محروم ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ گلانی نے کہا کہ “یہ مون سون کوویڈ 19 اور 2010 کے سیلاب کی طرح کا ایک چیلنج ہے جنہوں نے پاکستان کی زراعت کو تباہ کر دیا تھا۔“
پاکستان کی زراعت کے لئے موافقت پذیر اقدامات کی ضرورت ہے
مہران یونیورسٹی کے ریسرچ جرنل آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں شائع ہونے والی 2020 کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اگر پاکستان زراعت میں موافقت کے اقدامات پر عمل درآمد نہیں کرتا تو موسمیاتی تبدیلی سے جی ڈی پی میں اس شعبے کا حصہ تقریباً 5 فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔ مطالعہ کے مطابق، “تاہم، فصل کی پیداوار بڑھانے کے لئے زرعی ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری سے جی ڈی پی میں تقریباً 17 فیصد زرعی ویلیو ایڈڈ اضافہ ہونے کا امکان ہے جبکہ نہری اور آبی گزرگاہوں کی کارکردگی میں بہتری کے لئے سرمایہ کاری اس میں 9 فیصد اضافہ کرے گی۔”
حیدرآباد کے ایک کسان اور سندھ چیمبر آف ایگریکلچر کے نمائندے غلام سرور پنہور نے کہا کہ ان کا تجربہ اس مطالعے کی تائید کرتا ہے۔ پنہور نے کہا، “اگر پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنا چاہتا ہے تو اسے اپنی زراعت میں موافقت پذیر اقدامات کرنے ہوں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اس میں کاشتکاری کے نظام میں ترمیم کرنا، کسانوں کو تربیت اور معیاری بیج فراہم کرنا، اور عوامی ترقی اور تحقیقی فنڈ میں اضافہ کرنا شامل ہے۔
(ذوالفقار کنبھر کراچی میں مقیم فری لانس ماحولیاتی صحافی ہیں۔ ان کی پیشِ نظر رپورٹ دی تھرڈ پول پر شایع ہوچکی ہے، جسے یہاں پڑھا جاسکتا ہے۔ سیلاب سے پاکستان میں زراعت کو پہنچنے والے نقصانات پر یہ رپورٹ یہاں دوبارہ شایع کی گئی ہے۔)