The news is by your side.

کیسے میلے ہوئے آئینہ دکھانے والے…

بلقیس خان نے جب اپنے خیالات اور احساسات کو موزوں کرنے کا آغاز کیا تو اس کی ابتدا آزاد نظم سے کی۔ بعد میں‌ انھوں نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی اور ادبی حلقوں میں ایک خوش فکر شاعرہ کے طور پر جگہ بنانے میں کام یاب رہیں۔

میانوالی سے تعلق رکھنے والی شاعرہ بلقیس خان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

کوئی تہمت نہ کچھ الزام لگانے والے
کیسے میلے ہوئے آئینہ دکھانے والے

اس تبسم میں چھپی سسکیاں بھی دکھلاتا
مسکراتی ہو ئی تصویر بنانے والے

اے زمانے کے رویّوں سے الجھتے ہوئے شخص
تیرے تیور بھی ہوئے آج زمانے والے

میں نے ماتھے پہ بغاوت کا سجا کر جھومر
ہاتھ تھاما تھا ترا، ہاتھ دکھانے والے

اتنی جلدی تو کسی سوچ میں ڈھل سکتے نہیں
ہم تخیل میں الگ دنیا بسانے والے

پھر بھلا کون بھروسہ کرے کس پر بلقیس
نیند جب لُوٹ گئے خواب دکھانے والے

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں